Maktaba Wahhabi

181 - 548
و تجلدی للشاتمین أریہم أني لریب الدہر لا أتضعضع ’’برا کہنے والوں کی باتوں پر صبر کر، میں انھیں دکھلا دوں گا کہ میں گردش زمانہ سے نہیں گھبراتا۔‘‘ دشمنوں پر بڑی فتح کے بعد حسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی مبارک جماعت کے ساتھ دار الخلافہ واپس ہوئے، اسلامی حکومت کے وسیع ہونے اور دین اسلام کے پھیلنے پر ان کا دل شاداں و فرحاں تھا۔[1] ۵۔قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنہ سے متعلق علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف: قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنے کے بہت سارے اسباب تھے، جیسے مالداری اور معاشرے میں اس کی تاثیر، معاشرتی تبدیلی کی کیفیت، عثمان رضی اللہ عنہ کا عمر رضی اللہ عنہ کے بعد آنا، مدینہ سے کبار صحابہ کا نکل جانا، جاہلی عصبیت، حاسدوں کی سازش، عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف قابل مواخذہ چیزوں کی تعیین کے لیے پختہ تدبیر، لوگو ں میں ہیجان برپا کرنے والے وسائل و اسالیب کا استعمال، فتنے برپا کرنے میں سبائیت کی تاثیر وغیرہ، میں نے اپنی کتاب ’’تیسیر الکریم المنان فی سیرۃ عثمان بن عفان، شخصیتہ و عصرہ‘‘ میں ان اسباب کو بالتفصیل بیان کیا ہے۔ دشمنانِ اسلام نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے فتنہ میں لوگوں کو برانگیختہ کرنے والے وسائل و اسالیب کا استعمال کیا، جیسے افواہیں اڑانا، افواہ والی بات کو بکثرت بار بار دہرانا، لوگو ں کے سامنے خلیفہ سے بحث و مباحثہ اور مناظرہ کرنا نیز انھیں مشتعل کرنا، گورنروں پر تنقید کرنا، عائشہ، علی، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب جھوٹے خطوط تیار کرنا، اس بات کا پروپیگنڈا کرنا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ حقدار تھے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انھی کے لیے وصیت کی گئی تھی، بصرہ، کوفہ، مصر ہر جگہ سے چار گروہوں کو تیار کرنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے ہی سے تدبیر کی گئی تھی، اہل مدینہ کو اس دھوکے میں ڈال دیا کہ وہ لوگ صحابہ ہی کے بلانے پر آئے ہیں اور معاملات کو اس حد تک بڑھایا کہ قتل کی نوبت آگئی۔[2] ان وسائل کے ساتھ ساتھ بہت سارے نعروں کا استعمال کیا جیسے: ۱۔ اللہ اکبر پکارنا۔ ۲۔ یہ کہ وہ مظالم کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔
Flag Counter