Maktaba Wahhabi

328 - 548
’’تو ہم کوچ کرنے سے باز رہتے ہیں، تاکہ تو اپنی بردباری کے باعث راضی ہوجا۔‘‘ أنخنا فی فنائک یا الٰہی إلیک معرضین بلا اعتدال ’’اے الٰہی! بلا حیلہ بہانہ سب سے منہ موڑ کر تیری بارگاہ میں ہم حاضر ہیں۔‘‘ فسُسْنا کیف شئت و لا تکلنا إلی تدبیرنا یاذا المعالی[1] ’’اے اللہ! تو ہمارے ساتھ جیسا چاہے تصرف کر، اور ہمیں ہمارے تصرف کے حوالے نہ کرے۔‘‘ مقام رضا کے یہ چند مفاہیم ہیں جو امیرالمومنین حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے اس قول کی وضاحت کرتے ہیں: ((مَنِ اتَّکَلَ عَلَی حُسْنِ اخْتِیَارِ اللّٰہِ لَہُ لَم یَتَمَنَّ أَنْ یَکُوْنَ فِی غَیْرِالْحَالَۃِ الَّتِی اخْتَارَ اللّٰہُ لَہٗ، وَہَذَا حَدُّ الْوُقُوْفِ عَلَی الرِّضَا بِمَا تَصَرَّفَ بِہِ الْقَضَائُ)) [2] ’’جس نے اللہ کے حسن اختیار پر بھروسا کیا وہ اپنے لیے منجانب اللہ اختیار کردہ حالات کے علاوہ کسی دوسری حالت کی تمنا نہیں کرتا، او ریہی قضا و قدر پر راضی ہونے کا مفہوم ہے۔‘‘ امیرالمومنین حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا قول ہے: میں تمھیں اپنے ایک بھائی کی خبر دے رہا ہوں جو میری نگاہ میں بہت عظیم تھا، اس کی عظمت کا سب سے اہم راز یہ تھا کہ دنیا اس کی نگاہ میں حقیر تھی اور وہ اپنے پیٹ کا بندہ نہیں تھا، نہ ملنے والی چیز کی وہ خواہش نہیں کرتا تھا، مل جانے پر زیادہ نہیں کھاتا تھا، اپنی شرمگاہ کا غلام نہیں تھا، چنانچہ اس کے پیچھے اپنی عقل و رائے کا دامن نہیں چھوڑتا تھا، جاہلوں کا دست نگر نہیں تھا، منفعت کا یقین ہونے کے بعد ہی ہاتھ پھیلاتا تھا، بلاسبب نہ ناراض ہوتا نہ اکتاتا، علما کی مجلس میں بولنے سے زیادہ سننے کا حریص ہوتا، گفتگو میں مغلوب ہو بھی جاتا لیکن خاموشی میں نہیں، اکثر اوقات خاموش رہتا، جب بولتا تو بولنے والوں پر فوقیت لے جاتا، جس کے قول و عمل میں ہم آہنگی نہ ہو، ایسے قاضی کو دیکھ کر ہی کسی مقدمے اور جھگڑے میں بلامعاوضہ احساناً دخل اندازی کرتا اور دلیل دیتا، اپنے بھائیوں کا خیال رکھتا، انھیں چھوڑ کر اپنے لیے کوئی چیز خاص نہ کرتا، لائق عذر کسی چیز کے سلسلے میں کسی کی ملامت نہ کرتا، جب اس کے نزدیک دو باتوں میں سے کسی کا اقرب الی الحق ہونا واضح نہ ہوتا تو دیکھتا کہ ان میں سے کون سی بات خواہش کے زیادہ قریب ہے پھر اس کی مخالفت کرتا۔[3]
Flag Counter