Maktaba Wahhabi

496 - 548
کے ولی عہد مقرر کرنے کی بات شامل ہوتی تو حکومت چلانے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے پیش پیش ہوتے، یا کسی بڑے علاقے کے گورنر ہوتے، نہ یہ کہ مدینہ جاکر حکومت کے تمام معاملات سے الگ تھلگ ہوجاتے، نیز اس زمانے کے حالات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ شورائی طریقے سے خلیفہ اور حاکم کا انتخاب ہی اصل تھا۔ معاویہ و حسن رضی اللہ عنہما کے مابین امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے کا معاملہ: تاریخی کتابوں میں ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ شرط لگائی تھی کہ ان کے سنتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا نہ کہا جائے، گویا نہ سننے کی صورت میں علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے کو حسن رضی اللہ عنہ نے چھوڑ دیا تھا، اسی لیے میرے استاد ڈاکٹر محمد بطاینہ کہتے ہیں: ’’اس معاملہ پر حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین بحث ہی نہیں ہوئی ہوگی۔‘‘[1] شیعہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگائی ہے کہ وہ لوگوں کو مسجدوں کے منبروں سے علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے اور ان پرلعنت بھیجنے کے لیے ابھارتے تھے، لیکن یہ تہمت بے بنیاد ہے، سب سے زیادہ تکلیف کی بات یہ ہے کہ باحثین نے اس افترا پردازی اور تہمت کو بلاچھان بین اور تجزیہ کے قبول کرلیا، یہاں تک کہ متاخرین کے یہاں یہ ایسی تسلیم شدہ بات بن گئی جس میں بحث و مناقشہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی، حالاں کہ یہ بات کسی بھی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے، اور دمیری، یعقوبی اور ابو الفرج اصفہانی کی کتابوں میں جو وارد ہے اس پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا، نیز صحیح تاریخ سے ثابت ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت کا احترام کرتے تھے اور یہ بات ان لوگوں کی ذکر کردہ بات کے خلاف ہے۔[2] اس لیے بنی امیہ کے منبروں سے علی رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجنے کی بات واقعات اور جھگڑنے والوں کی فطرت سے میل نہیں کھاتی، عہد بنوامیہ کی تاریخی کتابوں کامراجعہ کرنے پر ہمیں ان میں اس طرح کی کسی چیز کا تذکرہ ہرگز نہیں ملتا، بعد کے مورخین کی کتابوں میں ایسی باتیں ملتی ہیں جنھوں نے اپنی تاریخی کتابیں عہد بنی عباس میں لکھیں، ان کا مقصد تھا کہ مسلمانوں کی نگاہ میں بنوامیہ کی ساکھ خراب کردیں، لعنت کی اس بات کو مسعودی نے ’’مروج الذہب‘‘ میں اور دوسرے شیعہ مورخین نے لکھا ہے، یہ جھوٹ اہل سنت کی تاریخی کتابوں میں در آیا، حالاں کہ اس سلسلے میں کوئی صریح اور صحیح روایت نہیں ملتی، جب کہ اس طرح کے دعویٰ کو صحیح روایت، جرح سے عاری سند اور اعتراض سے خالی متن کی ضرورت ہوتی ہے، باحثین و محققین کو پتہ ہے کہ اس طرح کے دعویٰ میں کتنا دم ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ اس طرح کی تہمتوں سے مبرا ہیں اس لیے کہ دین کے معاملے میں آپ کی فضیلت ثابت ہے
Flag Counter