Maktaba Wahhabi

487 - 548
(إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا) (النساء:۵۹) ’’اگر تمھیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام بہت اچھا ہے۔‘‘ مذکورہ باتوں کی روشنی میں یہ بات لازمی تھی کہ حدیث نبوی عہد خلافتِ راشدہ میں شریعت کے مصادر میں سے ہو۔ بلاشبہ خلافت راشدہ کی حکومت شریعت کی پابند تھی، اس میں اسلامی قانون و شریعت کو ہر قانون پر فوقیت حاصل تھی، وہ نہایت روشن و تابناک حکومت تھی، اپنے تمام شعبوں میں شرعی احکام کی پابند تھی، اس کا حاکم ان احکام کی سختی سے پابندی کرتا تھا۔[1] عہدِ خلافت راشدہ اور صحابہ کے معاشرے میں شریعت کو ہر چیز پر فوقیت حاصل تھی، حاکم و محکوم سب اس کے پابند تھے، اسی لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امت سے جس اطاعت کا مطالبہ کیا اسے اللہ و رسول کی اطاعت سے مربوط کرتے ہوئے فرمایا: ((أَطِیْعُوْنِیْ مَا أَطَعْتُ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ فَإِنَّ عَصَیْتُ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ فَلَا طَاعَۃَ لِی عَلَیْکُمْ۔)) [2] ’’جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو، اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں۔‘‘ ۲۔خلفائے راشدین کی سنت کی اہمیت: جیسا کہ گزر چکا ہے حسن رضی اللہ عنہ عہدِ خلافت راشدہ سے پوری طرح واقف تھے، ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان ذوالنورین اور اپنے والد علی رضی اللہ عنہن کے عہد خلافت سے بہت سارے اسباق سیکھے اور تجربات حاصل کیے، عہد خلافت راشدہ کی اہمیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ وہ عہد نبوی سے ملا ہوا ہے اور اس سے قریب ہے، عہد خلافت راشدہ عہد نبوی ہی کا تسلسل تھا، اس میں عہد نبوی کی تمام باتوں پر مکمل عمل ہوتا تھا، انھیں مکمل طور پر عمل میں لایا جاتا تھا، حرف بہ حرف ان کی تنفیذ ہوتی تھی اور ان کا التزام کیا جاتا تھا، ساتھ ہی ساتھ عہدِ خلافت راشدہ میں شورائی اصولوں پر حکومت کو مضبوط کرنے اور نوع بہ نوع نئے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے
Flag Counter