Maktaba Wahhabi

121 - 548
(وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ) (التوبۃ:۱۲۵) ’’اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس صورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی۔‘‘ (وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ) (یونس:۱۰۰) ’’اور اللہ تعالیٰ بے عقل لوگوں پر گندگی ڈال دیتا ہے۔‘‘ آیت میں ’’الرجس‘‘ سے مراد گندا آدمی ہے یا عذاب، اور یہ اللہ کے اسی قول کے مانند ہے: (إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ)مشرک نجس ہیں۔ الحاصل ’’الرجس‘‘ کی اصل گندگی ہے، اسے بول کر شرک مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ کے قول میں ہے: (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ) (الحج:۳۰) ’’تمھیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ نیز اس سے حرام کردہ خبیث چیزیں مراد لی جاتی ہیں، جیسے کھانے پینے کی چیزیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ) (الانعام:۱۴۵) ’’آپ کہہ دیجیے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لیے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کیوں کہ وہ بالکل ناپاک ہے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ) (المائدۃ:۹۰) ’’بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندگی باتیں شیطانی کام ہیں۔‘‘ یہ بات ثابت نہیں ہے کہ قرآن نے ’’الرجس‘‘ کا لفظ مطلق گناہ کے لیے استعمال کیا ہے، اس لیے ’’الرجس‘‘ کا خاتمہ معصوم ہونے کو ثابت نہیں کرتا۔ [1] د:… ’’الرجس‘‘ سے تطہیر کسی کے معصوم ہونے کو ثابت نہیں کرتی: جس طرح ’’الرجس‘‘ سے انسان کے گناہ اور اجتہادی غلطیاں مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد گندگی،
Flag Counter