Maktaba Wahhabi

528 - 548
اور احکام فقہیہ کے استنباط کے لیے فارغ تھے، اس لیے علم کے لیے لوگ وہاں جاتے تھے، وہاں سکون و اطمینان تھا جو علم و تحقیق کے لیے معاون ہوتا ہے۔[1] ۱۔صلح کے بعد معاویہ و حسن رضی اللہ عنہما کے مابین تعلقات: معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حسن رضی اللہ عنہ ان کے پاس آیا کرتے تھے، ایک بار ان کے پاس آئے تو ان سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کو ایسا عطیہ دے رہا ہوں جیسا نہ آپ سے پہلے کسی کو دیا ہے اور نہ آپ کے بعد کسی کو دوں گا، چنانچہ انھیں چار لاکھ درہم دیے اور انھوں نے قبول کرلیا۔[2] ایک دوسری روایت میں ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہر سال معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور وہ انھیں ایک لاکھ درہم دیتے تھے، ایک سال نہیں گئے اور نہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس کچھ بھیجا، چنانچہ دوات منگوائی تاکہ ان کے پاس لکھیں، لکھنے سے پہلے آپ کو نیند آگئی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں یہ کہتے ہوئے سنا: ((یا حسن أتکتب إلی مخلوق تسألہ حاجتک و تدع أن تسال ربک؟ قال: فما أصنع یا رسول اللّٰہ و قد کثر دیني؟ قال: قل: اللّٰہم إنی أسألک من کل أمر ضعفت عنہ قوتی و حیلتی و لم تنتہ إلیہ رغبتی ولم یخطر ببالی و لم یبلغہ أملی، و لم یجر علی لسانی من الیقین الذی أعطیتہ أحدا من المخلوقین الأولین و المہاجرین و الآخرین إلا خصصتنی یا أرحم الراحمین۔)) ’’اے حسن! کیا تم اپنی حاجت طلب کرنے کے لیے کسی مخلوق کو لکھ رہے ہو اور اپنے رب سے طلب نہیں کر رہے ہو؟ پوچھا: اے اللہ کے رسول کیا کروں میرا قرض زیادہ ہوگیا ہے، آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھو، اے اللہ میں تجھ سے ہر وہ چیز طلب کر رہا ہوں جو میری قوت و وسیلہ سے باہر ہے، اور ہر وہ چیز جس تک میری چاہت نہیں پہنچ سکتی ہے، نہ ہی وہ میرے دل میں کھٹکی، جہاں تک میری امید نہیں پہنچی اور نہ ہی وہ میری زبان پر آئی ہے، جو یقین تو نے کسی بھی مخلوق کو دیا ہے چاہے وہ پہلے لوگوں میں سے ہو یا مہاجرین یا دوسرے لوگوں میں سے، اے ارحم الراحمین مجھے بھی وہ عطا کر۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں بیدار ہوا تو مجھے دعا یاد ہوچکی تھی، میں یہ دعا پڑھتا رہا، معاویہ رضی اللہ عنہ کو جلد ہی میری یاد آئی، ان سے کہا گیا کہ وہ ایک سال نہیں آئے ہیں تو ان کے لیے دو لاکھ درہم کا حکم دیا۔[3]
Flag Counter