Maktaba Wahhabi

192 - 548
اشعری[1]، ابونعیم اصفہانی[2]، ابو منصور بغدادی[3]، زہری[4]، عبدالملک جوینی[5]، ابوعبداللہ بن بطہ[6]، غزالی[7]، ابوبکر بن العربی[8]، ابن تیمیہ[9] اور ابن حجر[10] ہیں۔ اجماع سے متعلق مذکورہ اقوال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد اپنے زمانے میں آپ کے خلافت کا زیادہ حقدار ہونے اور اس کے صحیح ہونے پر اجماع منعقد ہے، اس لیے کہ روئے زمین پر خلافت کا آپ سے زیادہ حقدار کوئی نہیں تھا علی رضی اللہ عنہ کو خلافت برمحل اور مناسب وقت پر ملی۔ ۱۔امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کا کوفہ چلے جانا: امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا مدینہ چھوڑ کر چلے جانے کی مدینہ کے بعض صحابہ تائید نہیں کرتے تھے، اس کا پتہ اس وقت چلا جب آپ نے شام جانے کا ارادہ کیا تاکہ وہاں کے لوگوں سے ملیں اور دیکھیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کیا کرنے والے ہیں [11] آپ کی رائے تھی کہ اس مرحلے میں مدینہ میں وہ عناصر نہیں ہیں جو دوسرے شہروں میں ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا تھا کہ افراد و اموال عراق میں ہیں۔[12] چنانچہ ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو جب اس کا علم ہوا تو خلیفہ سے کہا: اے امیر المومنین! کاش آپ یہیں رہتے اس لیے کہ یہ مضبوط قلعہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ہجرت ہے، اسی میں آپ کی قبر، آپ کا منبر اور اسلام کا سرچشمہ ہے، اگر عرب آپ کے لیے ٹھیک ٹھاک رہے تو آپ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے اور اگر کچھ لوگ آپ کے خلاف ہوگئے تو ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردینا، ان حالات میں اگر آپ مدینہ سے چلنے پر مجبور ہوگئے تو آپ چلے جانے پر معذور ہوں گے۔ چنانچہ خلیفہ نے ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا مشورہ مان لیا، اور مدینہ ہی میں رہنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور دوسرے علاقوں کے لیے
Flag Counter