Maktaba Wahhabi

441 - 548
مصالحت کے اہم مراحل پہلا مرحلہ: حسن رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے مابین صلح کرائے، اس مبارک دعا نے حسن رضی اللہ عنہ کو پورے اعتماد اور عزم مصمم کے ساتھ اس مصالحت پر آمادہ کردیا،[1] چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ ابْنِیْ ہَذَا سَیِّدٌ وَ لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنْ الْمُسْلِمِیْنَ۔)) [2] ’’میرا یہ لاڈلا سردار ہے اور توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے مابین صلح کرائے۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ محض پیشین گوئی نہیں تھی کہ اسے حسن رضی اللہ عنہ اور دوسرے مسلمان سنیں اور دوسری پیشین گوئیوں کی طرح اس کی تصدیق کریں، بلکہ وہ ان کی شاہراہ حیات، افعال و کردار کی جہت متعین کرنے والی بات تھی، جو ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکی تھی، ان کے جذبات و خیالات پر حاوی تھی، ان کے گوشت پوست میں سرایت کرچکی تھی، آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تصور کرتے تھے، آپ کے نانا جب یہ کلمات اپنی زبان سے ادا کر رہے تھے، تو آپ نے ان کے چہرے پر خوشی کے آثار اور آنکھوں میں چمک دیکھی تھی، چنانچہ آپ نے اس وصیت کو اپنی زندگی کا ایک اہم مقصد اور مستقبل کا اعلیٰ ترین آئیڈیل سمجھا۔ اس پیشین گوئی کے اثرات آپ کی حرکات و سکنات میں نمایاں تھے، یہاں تک کہ والد بزرگوار کے ساتھ ان کی گفتگو میں بھی، جن سے آپ ویسی ہی محبت کرتے تھے جیسا کہ فرماں بردار بچے اپنے ان عظیم والدین سے کرتے ہیں، جنھیں خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتوں اور فضائل و مناقب سے نوازا ہو، آپ ایک بیٹے اور صحابی کی حیثیت سے ان فضائل و مناقب کو اچھی طرح جانتے تھے اور اپنے والد کا غایت درجہ احترام کرتے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد آپ نے اپنے والد علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا تھا کہ لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر کہیں چلے جائیں تاکہ عربوں کے دور کے سپنے ختم ہوجائیں اور ان سے کہا تھا:
Flag Counter