Maktaba Wahhabi

433 - 548
کرتے رہو، اگر احسان مناسب جگہ پہنچا تو یہی تمھاری چاہت ہے ورنہ تمھاری جانب لوٹ آئے گا۔[1] ۱۳۔ حقیقت میں فیاض و سخی وہ ہے جو بے مانگے دے: ذوالجناحین عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے کہا: مانگنے کے بعد جو دیتا ہے وہ حقیقت میں فیاض و سخی نہیں، اس لیے کہ جو سائل کو اپنے چہرے کی بشاشت اور اچھی گفتگو سے نوازتا ہے اس کی یہ نوازش سائل کو عطیہ دینے والے کے عطیہ سے بہتر ہوتی ہے، حقیقت میں فیاض و سخی تووہ ہوتا ہے جو بغیر مانگے دے۔[2] ۱۴۔ہم احسان کی قیمت نہیں لیتے: ایک جاگیردار نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے درخواست کی کہ اس کی ایک ضرورت سے متعلق امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے یہاں سفارش کردیں، چنانچہ آپ نے سفارش کردی اور اس کی ضرورت پوری ہوگئی، جاگیردار نے آپ کے پاس چالیس ہزار درہم بھیج دیے، لوگو ں نے بتایا کہ اس جاگیردار نے اپنا قاصد بھیجا ہے، آپ نے قاصد سے کہا: جاکر اسے بتا دو کہ ہم اہل بیت احسان کو نہیں بیچتے۔ دوسری روایت کے مطابق ہم احسان کی قیمت نہیں لیتے۔[3] ۱۵۔وہ اور دوسرے لوگ ان کے مال میں شریک تھے: معاویہ بن عبداللہ بن جعفر سے پوچھا گیا: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کی سخاوت کس قدر تھی؟ کہا: لوگوں کو چھوڑ کر ان کے پاس کچھ نہیں تھا، وہ اور دوسرے لوگ ان کے مال میں شریک تھے، جو آپ سے مانگتا اسے دیتے، جو آپ سے کوئی چیز طلب کرتا اسے آپ وہ چیز دے دیتے، ان کے خیال میں دینے سے کم نہیں ہوتا کہ وہ نہ دیں، اور نہ ہی وہ آئندہ کی ضروریات کے لیے ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔[4] معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے معاملات: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ معاویہ اور عبد الملک کے پاس جاتے تھے، آپ عظیم الشان، معزز، سخی او رامام وقت تھے۔ [5] معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے تعلقات بہت اچھے اور مضبوط تھے، حتیٰ کہ اپنے ایک بچے کا نام آپ نے معاویہ رکھا، ابان بن تغلب سے مروی ہے کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس ہر سال آیا کرتے تھے، آپ انھیں ایک لاکھ درہم دیتے تھے، جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کرتے تھے۔[6]
Flag Counter