Maktaba Wahhabi

293 - 548
٭صدقہ عذاب کو دور کرتا اور لوگوں کے حقوق میں کمی کو ختم کرتا ہے: ((عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رضی اللّٰه عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ تَصَدَّقْنَ وَ أَکْثِرْنَ الْاِسْتِغْفَارَ، فَإِنِّیْ رَأَیْتُکُنَّ أَکْثَرَ أَہْلِ النَّارِ، إِنَّکُنَّ تَکْثُرْنَ اللَّعْنَ وَ تَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ۔))[1] ’’ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ کرو اور بکثرت مغفرت طلب کرو، میں نے جہنم میں تمھاری اکثریت دیکھی ہے بلاشبہ تم بکثرت لعن طعن کرتی ہو اور شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ صدقہ عذاب کو دور کرتا ہے، اور لوگوں سے متعلق گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔‘‘[2] دنیا میں اس کے بہت سارے فوائد ہیں، حدیثوں میں ان فوائد کی تائید موجود ہے۔ چنانچہ صدقہ بیماروں کی دوا ہے، مصیبت کو دور کرتا ہے، معاملات کو آسان کردیتا ہے، رزق کا باعث ہوتا ہے، بری موتوں سے بچاتا ہے، غضب الٰہی کو ٹھنڈا کرتاہے، گناہوں کے اثرات کو ختم کرتا ہے۔[3] اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا اللہ والا بننے سے گہرا تعلق ہے، ایمان کو تازہ کرنے اور دلوں کو زندگی بخشنے میں انفاق فی سبیل اللہ کا بہت مؤثر اور بنیادی کردار ہے، اور ہمارے لیے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی سخاوت و فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ میں ایک بہترین نمونہ ہے، انفاق فی سبیل اللہ دخول جنت کے اہم دروازوں میں سے ہے، جو مالداروں کے لیے زیادہ کھلا رہتاہے، اسی کے توسط سے امت کے بہت سارے بڑے لوگ جنت کے مستحق ہوئے ہیں، جیسے عثمان، عبدالرحمن بن عوف اور حسن وغیرہم رضی اللہ عنہم ۔ اس لیے عصر حاضر کے مالدار مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ اس دروازے میں داخل ہو کر اپنی طاقت بھر مسلمانوں کے مسائل اور دعوت کے منصوبوں میں بھرپور تعاون کریں تاکہ وہ رضائے الٰہی حاصل کرسکیں اور دخول جنت کے مستحق بنیں، ضرورت مندوں کے تعاون اور اللہ کے دین کی بھرپور مدد میں ہاتھ بٹاسکیں، بخیلی سے کام نہ لیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر سختی کردے۔ ۵۔آپ کی بردباری: حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور مروان بن حکم کے مابین کوئی بات تھی، چنانچہ آپ کے پاس مروان آئے اور آپ سے
Flag Counter