Maktaba Wahhabi

544 - 548
’’اَلْعَارُ خَیْرٌ مِنَ النَّارِ‘‘[1] ’’باعث شرم بات جہنم سے بہتر ہے۔‘‘ اور اسی بناء پر اپنے بارے میں ڈر گئے کہ کہیں قیامت کے دن اللہ کے سامنے ان کامحاسبہ نہ ہو جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں۔ ((أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الدَّمَائِ۔)) [2] ’’قیامت کے دن لوگوں کے مابین سب سے پہلے خون سے متعلق فیصلے کیے جائیں گے۔‘‘ قیامت کے خوفناک منظر کو یہ حدیث پیش کرتی ہے: ((یَجِیْئُ الْمَقْتُوْلُ بِالْقَاتِلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ نَاصِیَتُہٗ بِیَدِہٖ وَ أَوْدَاجُہٗ تَشْخَبُ دَمًا فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ سَلْ ہٰذَا فِیْمَا قَتَلَنِیْ؟ حَتّٰی یُدْنِیْہُ مِنَ الْعَرْشِ۔)) [3] ’’قیامت کے دن مقتول قاتل کو لے کر آئے گا، اس کی پیشانی اس کے ہاتھ میں ہوگی، اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا وہ کہے گا: اے میرے پروردگار اس سے پوچھئے کس وجہ سے اس نے مجھے قتل کیا تھا؟ یہاں تک کہ اسے عرش سے قریب کردے گا۔‘‘ یہ ہولناکیاں ہوں گی جن سے سب کو دوچار ہونا پڑے گا، جب جنتی جوانوں کے سردار موت و ما بعد الموت سے ڈرتے ہیں، تو قارئین کرام ہماری اور آپ کی حیثیت کیا ہے؟ ہمیں عبرت حاصل کرنا اور اس سخت ترین مرحلے کے لیے عمل کرنا چاہیے، ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم پر رحم فرمائے اور ہماری لغزشوں کو معاف فرمائے، بلاشبہ وہ مہربان، بردبار، ودود و رحیم ہے۔ بقیع قبرستان میں آپ کی تدفین: حسن بن علی رضی اللہ عنہما جب جاں کنی کی حالت میں ہوگئے تو حسین رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفنانا، ہاں اگر خونریزی کا خوف ہو گا تو میرے بارے میں خون مت بہانا، مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں دفن کردینا، جب وفات ہوگئی تو حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے تمام ہم نوا مسلح ہوگئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: میں آپ کو آپ کے بھائی کی وصیت اور اللہ کا واسطہ دے رہا ہوں، آپ جو چاہ رہے ہیں اسے قوم بغیر خونریزی کے ہونے نہیں دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں آپ کی تدفین کی مخالفت کرتے ہوئے مروان بن حکم نے کہا: یہاں کسی صورت میں ان کو دفن نہیں کیا جائے گا، چنانچہ ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، ابن عمر، عبداللہ بن جعفر اور مسور
Flag Counter