Maktaba Wahhabi

170 - 548
مدینہ کے صحابہ کرام جس پر متفق ہوجائیں اس کو ماننے والے تھے۔ ۲۳ھ تک مدینہ منورہ صحابہ کرام خصوصاً کبارِ صحابہ کا گڑھ رہا، اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے پاس ہی رکھا اور مفتوحہ علاقو ں کی جانب نہیں جانے دیا۔[1] ک:… مجلس شوریٰ اعلیٰ ترین سیاسی کمیٹی تھی: بلاشبہ عمر رضی اللہ عنہ نے صرف اہل شوریٰ کو یہ ذمہ داری دی کہ اپنے میں سے خلیفہ منتخب کریں،اور یہ ایک اہم بات ہے کہ اہل شوریٰ میں سے کسی نے بھی عمر رضی اللہ عنہ کی اس قرار داد کی مخالفت نہیں کی، اور دوسرے صحابہ میں سے بھی کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا، ہمارے پاس موجود نصوص اسی بات پر دلالت کرتے ہیں، چنانچہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس زمانے میں کسی نے بھی کوئی دوسرا منصوبہ پیش کیاہو، یا عمر رضی اللہ عنہ کے شورائی طریقِ کار کی آپ کی زندگی کے آخری اوقات میں یا آپ کی وفات کے بعد مخالفت کی گئی ہو، بلکہ تمام لوگو ں نے اس طریقِ کار کو پسند کیا اور انھیں اسی میں مسلمانوں کی مصلحت نظر آئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک اعلیٰ ترین سیاسی کمیٹی تشکیل دی جس کے ذمہ خلیفہ منتخب کرنا تھا، عمر رضی اللہ عنہ کی عبقریت کا مقرر کردہ یہ نیا دستوری نظام بالخصوص اس کا شورائی پہلو اسلام کے بنیادی اصول و مبادی سے متعارض نہیں تھا، اس لیے کہ نتیجے کے لحاظ سے اصل اعتبار اس عام بیعت کا تھا جو جامع مسجد میں انجام پذیر ہوئی۔ اس بناء پر بعض لوگو ں کے ذہنوں میں جو یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کس نے یہ حق دیا؟ اس طریقِ کار میں عمر رضی اللہ عنہ کی دلیل کیا ہے؟ وہ بے معنی ہیں۔ ہمیں یہ جان لینا کافی ہے کہ مسلمانوں نے اس طریقِ کار کو مانا، اسے پسند کیا، اس پر کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، اس طرح ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی صحت اور نفاذ پر اجماع (جو تشریع کے مصادر میں سے ہے) منعقد ہے۔[2] ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفۂ راشد ہیں، ہمیں یہ بھی یقین کرنا چاہیے کہ مجلس شوریٰ اعلیٰ ترین سیاسی کمیٹی تھی جسے عہد خلافت راشدہ میں اسلامی نظام حکومت نے مقرر کیا تھا، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس کمیٹی میں عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے مقرر کردہ لوگوں میں وہ خصوصیات تھیں جو دوسرے لوگوں میں نہیں تھیں۔ یہ خصوصیات انھیں منجانب اللہ عطا ہوئی تھیں اور انھیں ان خصوصیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلع کیا تھا، چنانچہ مومنوں کا عقیدہ ہے کہ کوئی دوسرا مسلمان عشرۂ مبشرہ کے تقویٰ اور امانت کے درجہ کو نہیں پاسکتا۔ اس طرح عمر رضی اللہ عنہ دنیا سے رخصت ہوئے، آپ نے مصیبت اور سکرات الموت کی پروا نہ کرتے ہوئے
Flag Counter