Maktaba Wahhabi

323 - 548
اس بیماری سے دور کیوں نہیں رہتا جو برے انجام کا باعث ہے۔[1] اس لیے حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے حسد سے ہمیں روکتے ہوئے فرمایا تھا: حسد برائیوں کی جانب لے جانے والا ہے، اسی وجہ سے قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا،[2] جب وہ اپنے بھائی کی قربانی کی من جانب اللہ قبولیت پر حسد کرنے لگا۔ حضرت حسن اور ابوذر رضی اللہ عنہما کے نزدیک رضا کا مفہوم: ابوالعباس محمد بن یزید مبرد کا قول ہے: حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے نزدیک غربت مالداری سے اور بیماری تندرستی سے زیادہ محبوب ہے، تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ ابوذر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، میں تو کہتا ہوں: جس نے بھی اپنے لیے اللہ کے حسن اختیار پر بھروسا کرلیا وہ اپنے لیے منجانب اللہ منتخب کردہ حالت کے علاوہ کی تمنا نہیں کرے گا، یہی قضا و قدر پر راضی ہونے کا مفہوم ہے۔[3] حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنی اس گفتگو میں اعمال قلوب میں سے ایک عمل کو بیان کر رہے ہیں، یہ اس اہم عمل سے ان کی آگاہی کی دلیل ہے، چنانچہ اعمالِ قلوب میں رضا کی اہمیت وہی ہے جو اعمال جوارح میں جہاد کی ہے، ان میں سے ہر ایک ایمان کے اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔[4] رضا محبت الٰہی کا ثمرہ ہے، یہ اللہ کے مقربین کا اعلیٰ مقام ہے، مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں، یہ اللہ تک رسائی کا اہم ذریعہ، عارفین کے دل کی ٹھنڈک اور دنیا کی جنت ہے، اس لیے جو اپنے آپ کا خیرخواہ ہو اس سلسلے میں اس کی رغبت شدید ہونی چاہیے، اس کے بدلے کسی اور چیز کو قبول نہ کرے، بندے سے اللہ کی رضا مندی جنت و ما فیہا سے بہتر ہے، اس لیے کہ رضا اللہ کی صفت ہے اور جنت اس کی مخلوق ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول: (وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ) (التوبۃ: ۷۲) ’’ایمان دار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اوران صاف ستھرے محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں۔‘‘
Flag Counter