Maktaba Wahhabi

173 - 548
کر لایا، ان سے اذان فجر تک تنہائی میں گفتگو کرتے رہے۔[1] ح:… حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اتفاق: آخری ذی الحجہ ۲۳ھ مطابق ۶/نومبر ۶۴۴ء کی صلاۃِ فجر (جس کے امام صہیب رومی رضی اللہ عنہ تھے) کے بعد عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ وہی عمامہ پہنے آئے جسے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنایا تھا، شوریٰ کے لوگ منبر کے پاس موجود تھے، آپ نے مدینہ میں موجود مہاجرین و انصار اور فوجوں کے قائدین کو بلوایا، ان میں سے امیر شام معاویہ، امیر حمص عمیر بن سعد، امیر مصر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم تھے، یہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس حج میں شریک تھے، اور آپ ہی کے ساتھ مدینہ آئے تھے۔[2] صحیح بخاری کی روایت میں ہے: ’’جب لوگ صبح کی نماز پڑھ چکے، اور مجلس شوریٰ کے لوگ منبر کے پاس جمع ہوگئے تو مدینہ میں موجود مہاجرین و انصار کو اور فوجوں کے قائدین کو بلوایا، یہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس حج میں شریک تھے، جب لوگ جمع ہوگئے تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے فرمایا: ((أَمَّا بَعْدُ! یَا عَلِيُّ إِنِّیْ قَدْ نَظَرْتُ فِیْ أَمْرِ النَّاسِ فَلَمْ أَرَہُمْ یَعْدِلُوْنَ بِعُثْمَانَ، فَلَا تَجْعَلْنَّ عَلٰی نَفْسِکَ سَبِیْلًا فَقَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ مُخَاطِبًا عُثْمَانَ: أَبَایِعُکَ عَلٰی سُنَّۃِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْخَلِیْفَتَیْنِ مِنْ بَعْدِہٖ فَبَایَعَہُ النَّاسُ الْمُہَاجِرُوْنَ وَ الْأَنْصُارُ وَ أُمَرَائِ الْأَجْنَادِ وَ الْمُسْلِمُوْنَ۔)) [3] ’’حمد و صلاۃ کے بعد، اے علی میں نے لوگوں کا جائزہ لیا ہے، وہ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے، اس لیے آپ اپنی ملامت کا راستہ نہ کھولیے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد دونوں خلیفہ کے طریقے پر آپ کے لیے بیعت کر رہا ہوں، پھر مہاجرین و انصار، فوجوں کے قائدین اور عام مسلمانوں نے آپ کے لیے بیعت کی۔‘‘ صاحب ’’التمہید و البیان‘‘ کی روایت میں ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے پہلے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیعت کی۔[4]
Flag Counter