Maktaba Wahhabi

193 - 548
گورنروں کو بھیج دیا۔[1] لیکن بہت سی سیاسی تبدیلیوں کے پیشِ نظر آپ مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور مدینہ سے نکل کر کوفہ جانے کا ارادہ کرلیا تاکہ اہلِ شام سے قریب رہیں۔[2] جب آپ نکلنے کی تیاری کر رہے تھے تو آپ کو عائشہ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے بصرہ کی جانب خروج کی خبر ملی، چنانچہ آپ نے اہل مدینہ سے کوچ کرنے کا مطالبہ کیا، اور انھیں اپنی مدد کی دعوت دی، علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں کچھ بازاری قسم کے لوگوں کے باعث نیز ان کے ساتھ طریقۂ تعامل کے سبب کچھ اہل مدینہ کوچ کرنے سے کترا رہے تھے، بہت سارے اہل مدینہ کی رائے تھی کہ ابھی فتنہ باقی ہے اس لیے توقف ضروری ہے تاکہ معاملات مزید واضح ہوجائیں، وہ کہتے تھے اللہ کی قسم ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، اس معاملے میں ہمیں اشتباہ ہے، ہم رکے رہیں گے یہاں تک کہ معاملہ صاف اور واضح ہوجائے۔ طبری نے روایت کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سات سو آدمیوں کی فوج لے کر شام کی جانب نکل کھڑے ہوئے آپ کے ساتھ اہل بصرہ و کوفہ میں سے تیز طرار لوگ چھپے طور پر نکل پڑے۔[3] امیر المومنین کی دعوت قبول کرنے سے بہت سارے اہل مدینہ کے کترانے کی بہت ساری دلیلیں ہیں ان میں سے خلیفہ کے وہ خطبے ہیں جن میں آپ نے اس کترانے کی شکایت کی ہے۔[4] ۲۔حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی اپنے والد کو نصیحت: امیر المومنین مدینہ سے نکلے، مقام ’’ربذہ‘‘[5] پہنچ کراپنے ساتھیوں سمیت پڑاؤ ڈالا، آپ کے پاس بہت سارے مسلمان آئے جن کی تعداد دو سو تک تھی۔[6] مقام ’’ربذہ‘‘ میں آپ کے پاس آپ کے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ روتے ہوئے گئے، مسلمانوں کے اختلاف و انتشار کے باعث آپ پر حزن و ملال نمایاں تھا، انھوں نے اپنے والد سے کہا: میں نے آپ کو بعض کام کرنے کے لیے کہا توآپ نے میری باتیں نہ مانیں، آپ کسی دن کسی بیابان میں اس حال میں قتل کردیے جائیں گے کہ آپ کا کوئی مددگار نہ ہوگا، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ابھی تم بچے ہو، تم نے کن کاموں کو کرنے کے لیے کہا اور میں نے انکار کردیا؟ کہا: جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا میں نے آپ کو مدینہ سے چلے جانے کے لیے کہا تاکہ ان کے
Flag Counter