Maktaba Wahhabi

60 - 548
لوٹے، کہاں گئے، ان کی کیا خبر رہی کچھ نہیں معلوم ہوسکا۔ وہ گمشدہ لوگوں میں سے ایک ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے، چنانچہ ان کے آپ کی شان میں چند مدحیہ قصائد ہیں۔ مجبوراً غزوۂ بدر کے لیے نکلے تھے، غزوہ بدر کے لیے نکلتے وقت ان کے اور قریش کے مابین گفتگو ہوئی۔ ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم اے بنو ہاشم! تم اگرچہ ہمارے ساتھ چل رہے ہو لیکن تمھارا جھکاؤ محمد کی جانب ہے، چنانچہ طالب بن ابوطالب مکہ لوٹنے والوں کے ساتھ لوٹ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں قصیدہ کہا، جس میں بدر کے کنویں میں مدفون لوگوں کا رونا رویا ہے۔[1] ۲۔عقیل بن ابوطالب رضی اللہ عنہ : آپ کی کنیت ابویزید ہے، آپ تاخیر سے فتح مکہ کے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ایک قول کے مطابق آپ حدیبیہ کے بعد اسلام لائے، ۸ھ کی ابتداء میں ہجرت کی، معرکۂ بدر میں قید کرلیے گئے تھے، آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہما نے انھیں فدیہ دے کر چھڑایا۔ صحیح بخاری میں کئی جگہوں پر ان کا تذکرہ ملتا ہے، غزوۂ موتہ میں شریک ہوئے، فتح مکہ اور غزوۂ حنین میں آپ کا تذکرہ نہیں ملتا ہے، شاید آپ مریض تھے، اس جانب ابن سعد نے اشارہ کیا ہے، لیکن زبیر بن بکار نے اپنی سند سے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ عقیل غزوۂ حنین میں مردانہ وار مقابلہ کرنے والوں میں سے تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وفات پائی۔ امام بخاری کی ’’تاریخ اصغر‘‘ میں سند صحیح سے وارد ہے کہ ان کی وفات واقعۂ حرہ سے پہلے یزید کی خلافت کے شروع میں ہوئی۔[2]آپ کی عمر ۹۳ سال تھی۔ [3] ۳۔جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ : آپ اسلام لانے والے سابقین اولین میں سے ہیں۔ محتاجوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ بیٹھتے، باہم ایک دوسرے کی خدمت کرتے اور آپس میں باتیں کرتے، حبشہ کی جانب ہجرت کی تو نجاشی اور اس کے ساتھی آپ کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (آپ کے بارے میں اپنی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ عرض وقائع و تحلیل أحداث‘‘ میں میں نے گفتگو کی ہے) سرزمین شام میں مؤتہ کی جنگ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔[4]
Flag Counter