Maktaba Wahhabi

215 - 548
کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے، ان کا ظن غالب تھا کہ وہی حق پر ہیں، چنانچہ اہل شام کو جمع کرکے انھیں خطاب کیا اور یاد دلایا کہ وہی عثمان رضی اللہ عنہ کے ولی ہیں، انھیں ظلماً قتل کیا گیا ہے، انھیں یہ آیت پڑھ کر سنائی: (وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا) (الاسراء: ۳۳) ’’اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے، بے شک وہ مددکیا گیا ہے۔‘‘ پھر کہا: میں چاہتا ہوں کہ قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تم مجھے اپنی رائے سے آگاہ کرو، چنانچہ اہل شام اٹھ کھڑے ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا جو مطالبہ آپ کا تھا اس کے لیے تیار ہوگئے اس سلسلے میں آپ سے بیعت کی، اس بات کا پختہ عہد کیا کہ اپنی جان و مال قربان کردیں گے تاآنکہ ان کو قصاص مل جائے یا اللہ تعالیٰ انھیں فنا کردے۔[1] حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے ان بڑے بڑے واقعات کا مشاہدہ کیا اور فتنہ سے متعلق ہر صحابی کی رائے سے آگاہی حاصل کی، آپ کا رجحان تھا کہ جہاں تک ہو سکے امن و صلح اختیار کرنا چاہیے۔ ۲۔جنگ صفین کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے اور اہل شام پر لعنت بھیجنے سے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا منع کرنا: علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جنگ صفین چھڑ گئی (میں نے اس کی پوری تفصیلات اپنی کتاب ’’أسمی المطالب فی سیرۃ أمیر المومنین علی بن أبي طالب‘‘ میں ذکر کی ہیں) لڑائی میں تیزی آگئی، اہل عراق ، اہل شام پر غالب آنے لگے، ان کی صفیں منتشر ہوگئیں، قریب تھا کہ شکست کھا جائیں، ایسے میں اہل شام نے نیزوں پر مصاحف کو اٹھا کر کہا: ہمارے اور تمھارے درمیان یہ کتاب فیصلہ کرنے والی ہے، لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، اہل شام کے بعد شام کی اور اہل عراق کے بعد عراق کی سرحدوں کی حفاظت کون کرے گا؟ جب لوگوں نے اٹھائے ہوئے مصاحف کو دیکھا تو کہا: کتاب اللہ کی جانب رجوع کرتے ہیں اور اس کی بات مان لیتے ہیں۔[2] قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کرنے کی تاکید کے بغیر کتاب اللہ کی تحکیم کی دعوت دینا، نیز معاویہ رضی اللہ عنہ کا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت و اطاعت کو قبول کرنے کی تاکید کے بغیر تحکیم کی دعوت کو قبول کرلینا یہ تبدیلی
Flag Counter