Maktaba Wahhabi

309 - 548
۱۵۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا مقام ومرتبہ: مدرک ابوزیاد کہتے ہیں: ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے باغ میں تھے، عبداللہ بن عباس، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم آئے، باغ میں ٹہلے گھومے، پھر ایک کنویں کے پاس آکر اس کے کنارے بیٹھ گئے، مجھ سے حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: اے مدرک! کیا تمھارے پاس کھانا ہے؟ میں نے کہا: میں نے روٹی تیار کی ہے، کہا: لے آؤ، چنانچہ میں روٹی، تھوڑا پسا ہوا نمک اور دو عدد پیاز لے کر آیا، آپ نے کھایا پھر کہا: اے مدرک! یہ کیا ہی اچھا کھانا ہے، اس کے بعد اپنا کھانا لے کر آئے، جو بہت عمدہ اور کافی مقدار میں تھا، کہا: اے مدرک! میرے پاس باغ میں موجود بچوں کو بلاؤ، مدرک کا بیان ہے کہ آپ نے کھانا انھیں دے دیا، ان سب نے کھایا آپ نے نہیں کھایا، میں نے کہا: کیا آپ نہیں کھائیں گے؟ اس پر آپ نے فرمایا: وہ کھانا میرے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ پھر وہ لوگ اٹھے، وضو کیا، پھر حسن رضی اللہ عنہ کی سواری لائی گئی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی زین کو اس پر کسا، پھرحسین رضی اللہ عنہ کی سواری لائی گئی، اس کی بھی زین عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کسی، جب دونوں چلے تو میں نے کہا: آپ ان دونوں سے بڑے ہیں اور ان کی زین درست کرتے ہیں ؟ فرمایا: ارے بے وقوف تمھیں معلوم ہے یہ دونوں کون ہیں ؟ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں، یہ منجانب اللہ مجھ پر کرم ہے کہ میں ان کی زین درست کروں۔[1] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کی جانب سے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اتنی عزت اور اتنا احترام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ ان دونوں سے محبت کرتے تھے اور ان کی فضیلت کے معترف تھے، ساتھ ہی ساتھ یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت کی دلیل بھی ہے، اس لیے کہ اہل فضیلت کی فضیلت کا اعتراف فضیلت والے ہی کرتے ہیں۔ امیر المومنین علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ اپنے چچا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کے والد عباس رضی اللہ عنہ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میرے والد عباس رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے آپ کی عیادت کے لیے علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے، مجھے دیکھا کہ میں ان کے دونوں پاؤں درست کر رہا ہوں، انھوں نے دونوں پاؤں میرے ہاتھوں سے لے لیے اور میری جگہ بیٹھتے ہوئے کہا: میں اپنے چچا کی خدمت کا تم سے زیادہ حق دار ہوں، اگر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے چچا حمزہ، میرے بھائی جعفر کو وفات دے دی ہے تو میرے لیے چچا عباس کو باقی رکھا ہے، کسی آدمی کا چچا اس کے باپ جیسا ہوتا ہے، اس کے ساتھ اس کا حسن سلوک اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک جیسا ہوتا ہے، اے اللہ! میرے چچا کو صحت و عافیت عطا فرما، ان کے درجات کو بلند کر، انھیں علیین میں جگہ دے۔[2]
Flag Counter