Maktaba Wahhabi

308 - 548
پاس بھیجا اور مجھ سے کہا: وہ تم سے پوچھیں گے، تمھارے آقا کی کیا خبر ہے؟ تو ان سے کہنا: آپ کے لیے ان کا ایک پیغام ہے، اگر آپ شیر کے منہ میں ہوں تب بھی میں آپ کے ساتھ رہنا پسند کروں گا، لیکن میری رائے میں معاملہ ایسا نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں: میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے مجھے کچھ نہ دیا، حسن، حسین اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کے پاس گیا تو انھوں نے ہدایا اور تحائف سے ہماری سواری کو لاد دیا۔[1] ۱۴۔حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور ایک فقیر یہودی: ایک دن حسن رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے غسل کرکے نکلے، آپ بہترین کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے، لمبے بال بڑے خوب صورت نظر آ رہے تھے، آپ کے سامنے ایک محتاج یہودی آیا، اس کے جسم پر چمڑے کا ٹکڑا تھا، بیماری نے اسے لاغر کردیا تھا، اس پر ذلت و محتاجی کے آثار نمایاں تھے، دوپہر کی تمازت سے جھلسا ہوا تھا، اپنی پیٹھ پر پانی کا گھڑا اٹھائے ہوئے تھا، حسن رضی اللہ عنہ کو روکا اور کہا: اے نواسۂ رسول! ایک سوال ہے، آپ نے پوچھا: کون سا سوال ہے؟ کہا: آپ کے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ((اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُوْمِنِ وَ جَنَّۃُ الْکَافِرِ۔)) [2] ’’دنیا مومن کی جیل اور کافر کی جنت ہے۔‘‘ اور تم مومن ہو، میں کافر ہوں، میری رائے میں دنیا تمھاری جنت ہے اس کی نعمتوں سے لطف اندوزہو رہے ہو، اور میرے لیے جیل ہے، اس کی پریشانیوں نے مجھے ہلاکت تک پہنچا دیا ہے، محتاجی سے برا حال ہے، جب حسن رضی اللہ عنہ نے اس کی بات سنی تو اس سے کہا: آخرت میں اللہ تعالیٰ نے میرے لیے جو نعمتیں تیار کر رکھی ہیں اگر تم انھیں دیکھ لو تو تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ میری یہ حالت اس کے مقابلے میں جیل جیسی ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے جو عذاب تیار کر رکھا ہے اگر تم اسے دیکھ لو تو تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ تم اس وقت بڑی وسیع و عریض جنت میں ہو۔[3] حسن بن علی رضی اللہ عنہما بڑے ہی حاضر جواب تھے، آپ نے نہایت تشفی بخش اور مسکت جواب دیا، آپ نے واضح کردیا کہ اس کی موجودہ خستہ حالی آخرت میں کافروں کے لیے جو عذاب تیار کیا گیا ہے اس کے بالمقابل جنت ہے، اور حسن رضی اللہ عنہ کی حالت جسے وہ نعمتوں سے پُر سمجھتا تھا جنت میں متقیوں کے لیے جو نعمتیں تیار کی گئی ہیں ان کے بالمقابل وہ جیل جیسی ہے۔[4]
Flag Counter