Maktaba Wahhabi

520 - 548
چنانچہ بہت سارے اہل کوفہ نے اس دعوت پر لبیک کہا اور عمار و حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ چھ سے سات ہزار تک علی رضی اللہ عنہ کی جانب نکل پڑے۔[1] ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کوفہ کے گورنر تھے، عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ ہی سے وہ عراق کے محبوب قائدین میں سے تھے، علم و زہد میں آپ کا بڑا اونچا درجہ تھا، لوگوں کے نزدیک آپ کامقام و مرتبہ نہایت اعلیٰ تھا، ان سب چیزوں کے باوجود حسن رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب رہے اور وہ سب کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ ۳۔حسن رضی اللہ عنہ کے پاس اچھے قائدین تھے: حسن رضی اللہ عنہ کی صف میں اچھے قائدین تھے، جیسے آپ کے بھائی حسین، آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر، قیس بن سعد بن عبادہ (وہ عربوں کے زیرک ترین لوگ میں تھے) اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ اگر آپ کو خلافت کی چاہت ہوتی تو اپنے قائدین کو لوگوں کو تیار کرنے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں کود پڑنے کی اجازت دیتے اور کم از کم ایک وقت تک اپنے علاقے کے خلیفہ ہوتے۔ ۴۔آپ اہل عراق کے ساتھ تعامل اور ان کی نفسیات سے واقف تھے: آپ کے پاس اہل عراق کے ساتھ تعامل اور ان کی نفسیات کی آگاہی کے بارے میں خاص صلاحیتیں تھیں، اسی لیے آپ نے خلافت کی ابتداء ہی سے ان کے عطیات میں اضافہ کردیا، اسی طرح صلح کے منصوبے کو کامیاب بنانے میں آپ کی مہم معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ سے زیادہ مشکل تھی، اس کے باوجود آپ نے پیش آنے والی بہت ساری رکاوٹوں کو دور کرلیا، لوگوں نے آپ کے قتل کی کوشش کی، بعض لوگوں نے صلح کا انکار کردیا، اس کے علاوہ بہت سی رکاوٹیں تھیں، مگر آپ ان سب کو دور کرنے میں کامیاب رہے، خونریزی کو روکنے، امت کے اتحاد، راستوں کا امن اور فتوحات کا دور لوٹ آنا، یہ اور اس طرح کے اہداف (جن کی آپ نے منصوبہ سازی کی تھی) کو پالیا، یہ آپ کی بے مثال قائدانہ صلاحیت کی دلیل ہے۔ ۵۔عمرو بن عاص اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی جانب سے حسن رضی اللہ عنہ کی فوجوں کا جائزہ: صحیح بخاری میں وارد ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا سامنا پہاڑ جیسے فوجی دستوں کے ساتھ کیا، اس پر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے خیال میں یہ دستے اپنے مقابل فوجیوں کا کام تمام کرکے ہی واپس لوٹیں گے، اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ (جو دونوں میں بہتر تھے) نے کہا: اے عمرو، اگر یہ لوگ قتل کردیے گئے تو ان کے معاملات، ان کی عورتوں اور ان کی جاگیروں کا کون ذمہ دار ہوگا؟ چنانچہ انھوں نے ان (حسن رضی اللہ عنہ ) کے پاس قریش کے دو
Flag Counter