Maktaba Wahhabi

426 - 548
تتناساہ کأنہ لم تأتہ و ہو عند اللّٰہ مشہور کبیر[1] ’’آپ اس کو اس طرح بھلا دیتے ہیں گویا آپ نے اسے انجام نہیں دیا جب کہ وہ عنداللہ عظیم و معروف ہے۔‘‘ ۳۔زبیر بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے مابین قرض: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے زبیر کو دس لاکھ قرض دیا، جب ان کی وفات ہوگئی تو زبیر کے بیٹے نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے کہا: مجھے اپنے والد کے نوشتہ میں ملا ہے کہ ان کا آپ پر دس لاکھ درہم باقی ہے، آپ نے کہا: انھوں نے سچ لکھا ہے، چاہو تو لے لو، پھر جب بعد میں ملاقات ہوئی توکہا: مجھ سے غلطی ہوئی ہے، مذکورہ قرض آپ کا ان پر ہے، آپ نے کہا: میں ان کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں،انھوں نے کہا میں ایسا نہیں چاہتا۔[2] ابن عساکر کی روایت کے مطابق جب زبیر کے بیٹے نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے کہا: میں ایسا نہیں چاہتا، تو عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر چاہو تو میں ان کے حق میں معاف کردیتا ہوں، اور اگر تم اسے ناپسند کرتے ہو تو تم جتنی مہلت چاہو اتنی مہلت ہے، اگر یہ بھی نہیں چاہتے تو اس کے بدلے ان کا کوئی مال مجھ سے بیچ دو، کہا: میں بیچوں گا، لیکن پہلے قیمت کا تخمینہ کرلوں، چنانچہ وہ قیمت کا تخمینہ لگا کر آپ کے پاس آئے اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ آپ کے اور میرے علاوہ کوئی دوسرا نہ رہے، ابن جعفر رضی اللہ عنہما نے کہا: حسن و حسین رضی اللہ عنہما رہیں گے جو تمھارے گواہ ہوں گے، انھوں نے کہا: میں چاہتا ہوں کوئی نہ رہے، کہا: چلو، چنانچہ آپ کے ساتھ وہ چل پڑے اور آپ کو ایک بنجر غیرآباد زمین دی، جب خرید وفروخت ہوچکی تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سے کہا: اس جگہ مصلیٰ بچھاؤ، چنانچہ اس نے اس زمین کے سخت ترین حصے میں مصلیٰ بچھایا، لمبے سجدوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کرنے لگے، جب اپنی مطلوبہ دعا کرچکے تو غلام سے کہا: میرے سجدے کی جگہ کھودو، چنانچہ اس نے کھدائی کی تو ایسا چشمہ ملا کہ کھودے ہوئے حصے کو بھر دیا، اس پر ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیع ختم کرکے زمین مجھے واپس کر دیں، آپ نے کہا: میں نے دعا کی، اللہ نے قبول کرلی، اس لیے میں واپس نہیں کروں گا، چنانچہ آپ کے حصے کی زمین ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس باقی رہ جانے والی زمین سے زیادہ کارآمد ہوگئی۔[3]
Flag Counter