Maktaba Wahhabi

474 - 548
’’اے اللہ! معاویہ کو قرآن مجید اور حساب و کتاب سکھا اور انھیں عذاب سے بچا۔‘‘ نیز ارشاد نبوی ہے: ((أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوْا، قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَنَا فِیْہِمْ؟ قَالَ: أَنْتِ فِیْہِمْ۔ ثُمّ قَالَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم : أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَّہُمْ فَقُلْتُ: -أَیْ أُمَّ حَرَامٍ- أَنَا فِیْہِمْ یَا رَسُوْل اللّٰہِ؟ قَالَ: لَا۔)) [1] ’’میری امت کی پہلی فوج جو سمندری راستے سے لشکر کشی کرے گی ان کے لیے جنت واجب ہے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ان میں رہوں گی؟ تو آپ نے فرمایا: تم ان میں رہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کی پہلی فوج جو قیصر کے شہر(قسطنطنیہ) پر لشکر کشی کرے گی مغفور لہ ہوگی۔ میں(یعنی ام حرام) نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ان میں رہوں گی؟ کہا: نہیں۔‘‘ مہلب کہتے ہیں: اس حدیث میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت اور فضیلت ہے، اس لیے کہ انھوں نے ہی پہلے سمندری راستے سے لشکر کشی کی تھی۔[2] ۳۔معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل علم کے نقطہ ہائے نظر: أ - عبداللّٰہ بن عباس رضي اللّٰہ عنہما کي تعریف: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا: کیا آپ کو امیرالمومنین معاویہ رضی اللہ عنہ سے دلچسپی ہے وہ ہمیشہ ایک ہی رکعت وتر پڑھتے ہیں، انھوں نے کہا: بلاشبہ وہ فقیہ ہیں۔[3] ب ـ معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے لیے عبداللّٰہ بن مبارک کی تعریف: عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے نزدیک آزمائش کی ایک کسوٹی ہیں، جسے ہم نے ان کی جانب ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پایا، اسے ہم نے قوم یعنی صحابہ کرام میں متہم سمجھا۔[4] ج - امام احمد بن حنبل کی تعریف: امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو یہ کہے کہ میں اس کا قائل
Flag Counter