Maktaba Wahhabi

485 - 548
جائے، یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ایک طرح کی یاد دہانی تھی اور انھیں کتاب و سنت و سیرت خلفائے راشدین کی پیروی کے لیے پابند کرنا تھا، میرے استاد ڈاکٹر محمد بطاینہ سمیت ان مورخین سے میں اتفاق نہیں کرتا جن کی رائے میں اگر یہ شرط صلح کی شرائط میں سے مان لی جائے تو یہ معاویہ رضی اللہ عنہ پر ایک طرح کی تہمت طرازی ہوگی اور اس سلسلے میں ان پر کوتاہی کی تہمت لگانی ہوگی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانبین سے صلح کی مقررہ شرائط میں سے یہ شرط نہیں تھی۔[1] اس شرط کو بہت سارے علما نے ذکر کیا ہے، انھی میں سے ابن حجر ہیثمی ہیں، انھوں نے معاویہ و حسن رضی اللہ عنہما کے مابین صلح کی صورتِ حال اس طرح بیان کی ہے: ’’حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ خلافت ان کے حوالے کردیں گے، اور وہ لوگوں کے ساتھ کتاب و سنت اور سیرت خلفائے راشدین کی روشنی میں معاملہ کریں گے۔‘‘[2] یہاں تک کہ بعض شیعی کتابوں میں اس شرط کا تذکرہ ہے، یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ کے نزدیک ابوبکر، عمر، عثمان اور علی تمام خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی عزت اس حد تک تھی کہ انھوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے جو شرائط مقرر کیں، ان میں یہ شرط تھی کہ وہ کتاب وسنت اور سیرتِ خلفائے راشدین پر عمل کریں گے اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں گے۔[3] ایک دوسرے نسخے کے مطابق… سیرت خلفائے صالحین کی پیروی کریں گے۔[4] اس شرط کے ذریعہ سے دستورِ زندگی اور بنیادی قانون کے سلسلے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو پابند کرنا تھا، اس شرط سے چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں: ۱۔عہد خلافت راشدہ میں شریعت کے مصادر: أ:…قرآن کریم : ارشاد ربانی ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا)(النساء: ۱۰۵) ’’یقینا ہم نے تمھاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔‘‘
Flag Counter