Maktaba Wahhabi

182 - 548
۳۔ وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ۴۔ گورنروں کو بدلنے اور انھیں معزول کرنے کا مطالبہ، پھر مطالبہ عثمان رضی اللہ عنہ کے ہٹانے تک جاپہنچا، پھر انھیں مزید جرأت و ہمت ہوئی اور جلد از جلد خلیفہ کے قتل کا مطالبہ کرنے لگے، بالخصوص انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ دوسرے شہر والے خلیفہ کی مدد کے لیے آرہے ہیں تو خلیفہ کا ناطقہ بند کرنے کی گرمجوشی اور کسی بھی طریقے سے ان کو قتل کر دینے کی خواہش مزید بڑھ گئی۔[1] ان حوادث اور ان کے بعد جنگِ جمل و جنگ صفین وغیرہ کے حوادث کے پیچھے عبداللہ بن سبا کی قیادت میں سبائی تحریک کام کر رہی تھی۔ میں نے اپنی کتابوں ’’تیسیر الکریم المنان فی سیرۃ عثمان بن عفان‘‘ اور ’’أسمی المطالب فی سیرۃ علی بن أبي طالب‘‘ میں عبداللہ بن سبا کی حقیقت کو واشگاف کیا ہے، مزید معلومات کے لیے ان کا مراجعہ کیا جائے۔ میں نے اپنی کتاب ’’تیسیر الکریم المنان فی سیرۃ عثمان بن عفان‘‘ میں ان شبہات کا جائزہ لیا ہے جنھیں زبردستی تاریخِ عثمانی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ میں نے ان کے جھوٹ اور بطلان کو واضح اور قطعی دلیلوں سے ثابت کیا ہے، بلاشبہ عثمان رضی اللہ عنہ وہ مظلوم خلیفہ ہیں جن پر ان کے اوائل دشمنوں نے تہمتیں لگائیں اور متأخرین نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ٭فتنے کی ابتداء میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف: علی رضی اللہ عنہ خلیفہ کی اطاعت و فرماں برداری کرتے رہے، انھیں مشورے دیتے رہے، ان کی خیرخواہی کرتے رہے، خلیفۃ المسلمین عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت و فرماں برداری اور سخت ہونے کے باوجود ان کے احکام کی بجاآوری کو بیان کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((لَوْ سَیَّرَنِیْ عُثْمَانُ إِلٰی صِرَارٍ)) [2] ((لَسَمِعْتُ وَ أَطَعْتُ)) [3] ’’اگر عثمان رضی اللہ عنہ مجھے (باغیوں کے مقابلے کے لیے) مقام صرار جانے کا حکم دیں تو میں بجاآوری کے لیے تیار ہوں۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے تقریباً ڈیڑھ مہینہ پہلے جب سرکشی کرنے والے ذوالمروہ میں پہنچے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے
Flag Counter