Maktaba Wahhabi

151 - 548
سے کہا: ’’بہت سے عرب آپ کے خلاف ہوگئے ہیں، لوگوں کو تقسیم کردینے پر آپ کچھ نہ کرسکیں گے۔‘‘ [1] وہ لوگ معمولی لوگ نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو روئے زمین پر انبیاء و رسل کے بعد سب سے افضل ہیں، لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے کو نہ مانا، اور یہ واضح کردیا کہ فرمان نبوی ان تمام لوگو ں کی رائے سے زیادہ ضروری، قابل احترام اور افضل ہے۔[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اکثریت کی رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کبھی کبھی اقلیت کی رائے درست ہوتی ہے اور اکثریت کی رائے غلط ہوتی ہے، اس لیے اکثریت کی بناء پر ترجیح لازم نہیں ہے۔‘‘ [3] خلاصۂ کلام یہ کہ لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے قصے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جس رائے کو اکثریت کی تائید حاصل ہو یہ اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے۔[4] اس قصے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حق جب واضح ہوجاتا ہے تو مومن اس کو مان لیتے ہیں چنانچہ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں یاد دلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کے بھیجنے کا حکم دیا تھا، اور آپ ہی نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا تو ان لوگوں نے فرمان نبوی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔[5] د:… جس چیز کی دعوت دی جائے عملاً کرکے دکھایا جائے: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے قصے سے حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے یہ بھی سیکھا کہ جس چیز کی دعوت دی جائے اسے عملاً کرکے دکھانے کی اہمیت ہوتی ہے چنانچہ انھیں معلوم ہوا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت پر صرف اصرار ہی نہیں کیا بلکہ عملاً ان کو امیر ماننے کا ثبوت پیش کیا، یہ چیز درج ذیل دونوں باتوں سے ثابت ہوتی ہے: ٭ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہ اصرار پیدل چلنا جب کہ وہ سوار تھے اور ان کی عمر بیس سال کی تھی اورجب اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے مطالبہ کیا کہ یا تو آپ بھی سوار ہوجائیں یا مجھے سواری سے اترنے کی
Flag Counter