Maktaba Wahhabi

168 - 548
’’آپ تین دن لوگوں کی امامت کرائیں، یہ لوگ کسی گھر میں اکٹھے ہوں، جب یہ لوگ کسی شخص پر اتفاق کریں تو مخالفت کرنے والے کا سر قلم کردو۔‘‘ [1] ان لوگوں کے مخالفت کرنے اور مسلمانوں میں اختلاف و انتشارپیدا کرنے والے کو عمر رضی اللہ عنہ نے اسی قولِ نبوی پر عمل کرتے ہوئے قتل کرنے کا حکم دیا تھا: ((مَنْ أَتَاکُمْ وَأَمْرُکُمْ جَمِیعٌْ عَلَی رَجُلٍ مِنْکُمْ یُرِیْدُ أَنْ یَّشُقَّ عَصَاکُمْ أَوْ یُفَرِقَ جَمَاعَتَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ۔)) [2] ’’تم اگر کسی شخص پر متفق ہو ایسی حالت میں کوئی آکر تمھارے اندراختلاف پیدا کرنا چاہے یا تمھاری جماعت کو منتشر کرنا چاہے تو اسے قتل کردو۔‘‘ کتبِ تاریخ میں جو یہ روایت آئی ہے کہ آپ نے انھیں اکٹھا ہونے اورباہمی مشورہ کرنے کا حکم دیا اور لوگوں کے سامنے یہ بات واضح کردی کہ جب ان میں سے پانچ کسی شخص پر متفق ہوجائیں، ایک انکار کرے تو تلوار سے اس کی گردن مار دو، اور اگر چار کسی کو منتخب کرلیں، دو انکار کریں تو ان کی گردن مار دو،[3] اس روایت کی سند صحیح نہیں ہے، یہ ان عجیب و غریب روایتوں میں سے ہے جنھیں رافضی شیعہ ابومخنف نے صحیح روایتوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرتوں کی مخالفت کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ چنندہ صحابی ہیں اور ان فضائل اور مقام و مرتبہ کو جانتے ہوئے آپ ہی نے انھیں اس کام کے لیے منتخب کیا ہے۔[4] ابن سعد سے منقول ہے کہ ’’عمر رضی اللہ عنہ نے انصار سے کہا: ان لوگوں کو تین دن کے لیے کسی گھر میں داخل کردو، اگر معاملے کو ٹھیک کرلیتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ ان کی گردن مار دو۔‘‘[5] یہ روایت منقطع ہے، اس کی سند میں سماک بن حرب نامی راوی ضعیف ہیں، آخری عمر میں ان کا حافظہ خراف ہو گیا تھا۔[6] ج:… اختلاف کی صورت میں فیصل: آپ نے حکم دیا کہ ان کے ساتھ مجلس میں عبداللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہما ) بھی حاضر ہوں، انھیں کوئی اختیار نہیں ہوگا
Flag Counter