Maktaba Wahhabi

455 - 548
۲۔صلح سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کے متعین کردہ گورنروں کے رویے: اس سلسلے میں ان گورنروں کے رویے مختلف اور متضاد تھے، بعض نے اسے قبول کرلیا، بعض نے ناپسند کیا، ذیل میں ان کے رویوں کا ذکر ہے: أ: صلح کو قبول کرنے اور اسے بہتر سمجھنے کا رویہ، اس میں سرِ فہرست عبید اللہ بن جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ تھے۔ ب: پہلے انکار پھر قبول کرنے کا رویہ، اس میں سرفہرست قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ج: ایک تیسرا فریق تھا جس نے صلح کو ناپسند کرتے ہوئے اسے قبول کیا تھا، اس میں دو گروہ تھے۔ ایک گروہ یہ سمجھ رہا تھا کہ صلح پر عمل صرف حسن رضی اللہ عنہ کی زندگی تک ضروری ہے، ان کے نمائندہ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ تھے، دوسرا گروہ یہ سمجھ رہا تھا کہ صلح پر عمل معاویہ و حسن رضی اللہ عنہما دونوں کی زندگی تک یا ان میں سے جو بھی بعد میں انتقال کرتا ہے، اس کے انتقال تک ضروری ہے، ان کے نمائندہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما تھے۔ آٹھواں مرحلہ: حسن رضی اللہ عنہ کی فوج میں جو فتنہ پیدا ہوا منجانب اللہ اس سے نجات اور مدائن چھوڑ کر کوفہ آجانے کے بعد حسن رضی اللہ عنہ کا خلافت چھوڑ کر اسے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کردینا۔ بلاذری حسن رضی اللہ عنہ کے سفرِ کوفہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: جب حسن رضی اللہ عنہ نے مدائن سے کوفہ کا سفر کرنا چاہا تو آپ کے پاس ابن عامر اور ابن سمرہ رضی اللہ عنہما صلح کی دستاویز لے کرآئے جس میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے مطالبات کو تسلیم کیا تھا، اس موقع پر آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ایسا ہوسکتا ہے کہ تمھیں کوئی چیز ناپسند ہواور من جانب اللہ تمھارے لیے اس میں بہت ساری بھلائیاں مقدر ہوں، پھر کوفہ کی جانب چل پڑے۔[1] اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ مسکن سے نخیلہ نامی مقام کی جانب چل پڑے، اس سلسلے میں بلاذری کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ مسکن سے کوفہ کی جانب چل پڑے، نخیلہ اور دار الرزق کے مابین پڑاؤ کیا۔ [2] پھرحسن رضی اللہ عنہ کوفہ سے نخیلہ آئے تاکہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرکے معاملہ ان کے حوالے کردیں۔ مجالد[3] شعبی[4] سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: مقام نخیلہ میں جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ سے صلح کی تو میں وہاں موجود تھا، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ بات طے ہوگئی تو آپ کھڑے ہو کر لوگوں کو بتا دیں کہ
Flag Counter