Maktaba Wahhabi

74 - 548
مدینہ میں جاکر کام تلاش کرنے لگا، میں نے ایسی عورت کو دیکھا جس نے خشک مٹی جمع کر رکھی تھی، میرے خیال میں وہ اس کو بھگونا چاہتی تھی، میں اس کے پاس آیا اور اس سے ہر ڈول کے بدلے ایک چھوہارا طے کرلیا، سولہ ڈول پانی کھینچا، میرے دونوں ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے، پھر میں نے پانی پیا، اس کے پاس آیا اور کہا: اتنا بس ہے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دکھا کر سمیٹ لیے، اس نے مجھے سولہ چھوہارے گن کر دیا، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ کو بتلایا، چنانچہ آپ نے بھی اسی میں سے کھایا۔ [1] اس واقعے میں مدینہ میں حضرت حسن کے والد کی پریشان حالی کا ذکر ہے۔اس سے پریشانیوں کو برداشت کرنے کے لیے مشروع طرز عمل کا پتہ چلتاہے، اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حلال کمائی کے واسطے اپنے ہاتھوں کام کرنے کے لیے نکل پڑے، بیٹھ کر محسنین کے عطیات کا انتظار نہ کیا۔ اس واقعے سے قوت برداشت کا پتہ چلتاہے، طاقت کو کمزور کردینے والی سخت بھوک میں مبتلا ہونے کے باوجود مشقت سے بھرپور کام کو انجام دیا۔ اس واقعے سے احباب کے لیے وفاداری و ایثار کا پتہ چلتا ہے اس لیے کہ سخت بھوک اور مشقت سے بھرپور کام انجام دینے کے باوجود چھوہاروں کی اجرت کو بچا کر رکھا، یہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی، تو آپ نے بھی ان کے ساتھ کھایا۔[2] اس واقعے سے سب سے زیادہ اہم سبق یہ ملتا ہے کہ انسان کی مادی محتاجی اور مالداری اللہ کی بندے سے محبت اور عدم محبت کا معیار نہیں ہے، حقیقی معیار اللہ کا تقویٰ ہے، اس معیار پر ہمیں لوگوں کو پرکھنا چاہیے۔ ۵۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا زہد و صبر: حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی والدہ کی زندگی بڑی ہی سادہ تھی، اس میں خوشحالی کے بجائے تنگ دستی نمایاں تھی،[3] آنے والا واقعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پریشانی اور ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کی تصویر کشی کرتاہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے لونڈیوں میں سے ایک لونڈی کو طلب کیا تھا۔ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اللہ کی قسم پانی مہیا کرتے کرتے میرا سینہ درد کرنے لگاہے، فرمایا: اور اللہ نے آپ کے والد کے پاس لونڈیاں فراہم کر دی ہیں، جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خادمہ کا مطالبہ کرو، وہ کہتی ہیں، چکی پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں۔ چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ نے فرمایا: اے میری لاڈلی بچی کس لیے آئی ہو؟ انھوں نے کہا: میں آپ سے سلام کرنے آئی
Flag Counter