Maktaba Wahhabi

477 - 548
گورنری کے زمانہ میں رعایا کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کا کردار دوسرے گورنروں سے بہتر تھا، جس کے باعث لو گ آپ سے محبت کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث میں واردہے آپ فرماتے ہیں: ((خِیَارُ أَئَمَّتِکُمْ - حُکَّامِکُمْ- الَّذِیْن تُحِبُّوْنَہُمْ وَ یُحِبُّوْنَکُمْ وَ تَصِلُوْنَ عَلَیْہِمْ وَ یَصِلُوْنَ عَلَیْکُمْ، وَ شُرَّ أَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُبْغِضُوْنَہُمْ وَ یُبْغِضُوْنَکُمْ، تَلْعَنُوْنَہُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ۔))[1] ’’تمھارے اچھے حکام وہ ہیں جنھیں تم پسند کرو اور وہ تمھیں پسند کریں، تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعائے خیر کریں اور تمھارے برے حکام وہ ہیں جنھیں تم ناپسند کرو اور وہ تمھیں ناپسند کریں، تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔‘‘ ۵۔آپ کی حکومت سے متعلق امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا قول: سفیان بن لیل سے مروی ہے کہتے ہیں حسن بن علی رضی اللہ عنہما جب مدینہ سے کوفہ آئے تو انھیں مخاطب کرتے ہوئے میں نے ’’یا مذل المؤمنین‘‘ (اے مومنوں کو رسوا کرنے والے) کہا، انھوں نے کہا: ایسا نہ کہو، میں نے اپنے والد کو کہتے سنا ہے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد معاویہ حکومت کریں گے، اس پر مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ کا فیصلہ نافذ ہونے والا ہے، اس لیے مجھے ناپسند تھا کہ میرے اور ان کے مابین مسلمانوں کا خون بہے۔[2] علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے: ’’تم معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرنا، اللہ کی قسم ان کے نہ رہنے پر حنظل کے مانند سر تنوں سے جدا ہوں گے۔‘‘[3] ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ میں حکومت کی صلاحیت و طاقت تھی، نیز یہ کہ حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح سے متعلق باہمی گفت و شنید اور تعامل میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے اچھے اسلوب کے نتیجے میں مصالحت کی مشترکہ مصلحتیں وجود میں آئیں، صلح کے منصوبہ کے بالفعل منصوبہ ساز حسن رضی اللہ عنہ تھے، لیکن صلح کی کامیابی میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت، ذہنی وسعت، کشادہ دلی اور اسلوب کی نرمی کا بہت بڑا دخل رہا۔ آپ حسن رضی اللہ عنہ کا ادب کرتے تھے، ان کا احترام کرتے تھے اور اہل بیت کے فضائل بیان کرتے تھے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ الٰہی قضا و قدر کے مطابق ان کے مابین جو بھی جھگڑے اور لڑائیاں ہو چکی تھیں اس کے باوجود
Flag Counter