Maktaba Wahhabi

56 - 548
نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں کہا تھا: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔)) ’’جن کا میں مولیٰ تھا تو علی ان کے مولیٰ ہوں گے۔‘‘ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اگر اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد امارت وحکومت ہوتی تو جس طرح آپ نے نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزے اور حج کے بارے میں لوگوں کو صاف صاف بتا دیا تھا اسی طرح اس کے بارے میں بھی لوگوں کو صاف صاف بتا دیتے، اور ان سے کہہ دیتے کہ میرے بعد یہ تمھارے حاکم ہوں گے، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سب سے زیادہ خیر خواہ تھے۔اگر معاملہ حقیقت میں ویسے ہی ہوتا جیسے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ اور اللہ کے رسول نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس حکومت و خلافت کے لیے چنا ہے تو حضرت علی کی یہ بہت بڑی غلطی اور بہت بڑا جرم ہوتا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو ترک کردیا کہ وہ حکومت و خلافت کو آپ کے حکم کے مطابق اپنائیں یا لوگوں سے معذرت طلب کریں۔‘‘[1] اس طرح غلو و مبالغہ کو روکنے سے متعلق اہل بیت کا طرز عمل واضح ہوجاتا ہے۔ ۱۱۔ آپ کے بھائی اور بہنیں: ۱۔حسین بن علی رضی اللہ عنہما : آپ ابوعبداللہ حسین بن علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہما ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، آپ کے ریحانہ اور محبوب اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ہیں، آپ کی ولادت ۴ھ میں ہوئی، اور عراق کی سرزمین ’’کربلا‘‘ میں دس محرم ۶۱ھ کو شہادت پائی، اللہ آپ سے راضی ہو اور آپ کو راضی کرے۔ [2] آپ کے فضائل و مناقب میں بہت ساری حدیثیں وارد ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں: ا: امام احمد اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ یعلی عامری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں گئے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوم کے سامنے آئے، حضرت حسین رضی اللہ عنہما چند بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ آپ کو پکڑ لیں چنانچہ وہ یہاں وہاں بھاگنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ہنساتے رہے ، یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا، ایک ہاتھ ان کی گدی کے نیچے اور دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے کیا اور ان کو بوسہ دیا، نیز فرمایا:
Flag Counter