Maktaba Wahhabi

191 - 548
رابعاً:… حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنے والد کے عہد میں مختلف علاقوں اور قبائل سے آنے والے اوباش اور شریر باغیوں(جن کے کچھ دینی کارنامے نہ تھے) کے ہاتھوں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت بہ طریقۂ انتخاب پوری ہوئی، بروز جمعہ ۱۸/ذی الحجہ ۳۵ھ[1] کو ظلماً آپ کو قتل کردیے جانے کے بعد مدینہ میں موجود تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے علی رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت کرلی، اس لیے کہ علی الاطلاق اس وقت آپ سے افضل کوئی نہیں تھا، عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد آپ نے اپنے لیے خلافت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی آپ کو اس کا لالچ تھا، اسی لیے مدینہ میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اصرار کے بعد ہی اور اس اندیشے کے پیشِ نظر آپ نے اسے قبول کرلیا تھا کہ کہیں فتنے اور نہ بڑھ جائیں، اس کے باوجود جنگ جمل و جنگ صفین جیسے فتنوں کے بعد (جنھیں حاقدین اسلام ابن سبا اور اس کے کارندوں نے برپا کیا تھا) بعض نادانوں کی تنقید سے نہ بچ سکے، بعض اہل علم نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کرنے کی کیفیت کو روایت کیا ہے۔[2] میں نے ان روایات کو بالتفصیل اپنی کتاب ’’اسمی المطالب فی سیرۃ أمیر المومنین علی بن أبي طالب‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ اہل سنت و الجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت کے لیے علی رضی اللہ عنہ متعین تھے، اس لیے مہاجرین و انصار نے آپ کے لیے اسی بنا پر بیعت کرلی تھی کہ بقیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں آپ سب سے افضل، سب سے پہلے اسلام لانے والے، سب سے زیادہ علم والے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی طور پر سب سے زیادہ قریب، سب سے بہادر، اللہ و رسول کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب، سب سے زیادہ فضیلتوں والے، سب سے افضل کارناموں والے، سب سے بلند مقام ومرتبہ والے، صورت و سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اس لیے کسی دوسرے کے بجائے وہی خلافت کے لیے مستحق تھے۔ مدینہ میں موجود تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بالاجماع آپ کی خلافت کے لیے بیعت کی تھی، اس لیے اس وقت آپ خلیفہ برحق تھے، تمام لوگوں پر آپ کی اطاعت واجب تھی، اور آپ کی مخالفت و بغاوت حرام تھی، بہت سارے اہل علم نے آپ کی خلافت پر اجماع نقل کیا ہے، ان میں سے ابن سعد[3]، ابن قدامہ[4]، ابوالحسن
Flag Counter