Maktaba Wahhabi

44 - 548
پر ایک بکری ذبح کرتے، اس کا سر مونڈواتے اور اس کے سر کو زعفران سے لیپ دیتے۔‘‘[1] یہ رہا طریقۂ نبوی کہ جب آپ نے ایسی عادت دیکھی کہ اس میں لوگوں کی منفعت ہے، لیکن اس میں مولود کے سر کو خون سے لیپنے کا انحراف ہے، توآپ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر اس کو مطلقاً مباح قرار نہیں دیا، اور ساتھ ہی ساتھ انحراف کی وجہ سے مطلقاً منع بھی نہیں کیا، بلکہ اس عادت میں لوگوں کی مصلحت و منفعت کو باقی رکھا، اور جاہلیت کی عادت کو حرام قرار دیا۔ یہ ہے حکمت سے پر طریقۂ نبوی جو اہتمام اور غور و فکر کا مستحق ہے۔ ۷۔حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ختنہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں دن حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی جانب سے عقیقہ کیا، اور ان کا ختنہ کردیا[2] اور محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ختنہ کرایا۔[3] ختنہ فطری امور میں سے ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فطری چیزیں پانچ ہیں: ختنہ، زیر ناف بال صاف کرنا، مونچھ کاٹنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھاڑنا۔ [4] ختنہ حنیفیت کی پہچان ہے،یہ قائم مقام اس رنگ دار پانی کے ہے جس کے ذریعے صلیب پرست نصاریٰ بچوں کو عیسائی بناتے ہیں، وہ اپنے زعم باطل کے مطابق جب اس رنگ دار پانی سے اپنے بچوں کو رنگتے ہیں تو وہ انھیں پاک کردیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اب وہ نصرانی ہوگئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حنفاء کے لیے حنیفیت کی پہچان مقرر کی اور اس کی علامت ختنہ کو قرار دیا۔[5] اللہ کا فرمان ہے: صِبْغَةَ اللَّـهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ (البقرۃ:۱۳۸) ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو، اور اللہ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہوسکتاہے؟ اور ہم اس کی عبادت کرنے والے ہیں۔‘‘ مقصود یہ کہ اللہ کا رنگ وہ حنیفیت ہے جس نے دلوں پر اللہ کی معرفت و محبت، اس کے اخلاص اور صرف اسی کی عبادت کا رنگ چڑھا دیا ہے، اور جسموں پر خصال فطرت (ختنہ، زیر ناف بال صاف کرنا، مونچھ کاٹنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھاڑنا، کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، مسواک کرنا، استنجا کرنا) کا رنگ چڑھا دیا ہے، اس
Flag Counter