Maktaba Wahhabi

66 - 548
اور کہا کہ ان کو اس میں لپیٹ دو۔ [1] اس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصیبتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں، یہاں تک کہ ان کا اثر آپ کی بچیوں تک پہنچا، پھر بھی آپ بہ نیت ثواب صبر کرتے ہوئے دعوت کا کام انجام دیتے رہے، یہیں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کا راستہ بڑا صبر آزما اور قربانیوں کا طالب ہے۔ حضرت زینب کے بطن سے ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کی دو اولاد امامہ اور علی رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔ علی رضی اللہ عنہ کم عمری ہی میں انتقال کر گئے۔ دوسرے قول کے مطا بق نبی کی زندگی ہی میں وفات پاگئے۔ بلوغت کے قریب پہنچ چکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر جب مکہ میں داخل ہوئے تو وہ اونٹنی پر آپ کے ردیف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امامہ کی بڑی قدر و منزلت تھی، آپ نماز کی امامت کراتے ہوئے انھیں اپنے کندھے پراٹھائے رہتے۔ ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھاتے ہوئے اس حال میں دیکھا کہ آپ اپنی نواسی امامہ بنت ابوالعاص کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے، جب جھکتے اتار دیتے، اور جب کھڑے ہوتے اٹھا لیتے۔ [2] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نجاشی نے چند زیور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ دیے، اس میں حبشی نگینہ والی سونے کی انگوٹھی تھی، آپ نے اسے لے لیا، آپ کو اس کی چاہت نہیں تھی، اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو دے دی اور کہا: اے لاڈلی! تم اس کو پہن لو۔ [3] دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال کے پاس پہنچے، آپ یمنی مونگوں والا ہار لیے ہوئے تھے۔ فرمایا: میں اسے اپنے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب کو دوں گا، انھوں نے کہا: آپ اسے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بچی (عائشہ) کو دیں گے، آپ نے اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو بلایا، اور ان کو اپنے ہاتھ سے ہار پہنا دیا۔[4] ان کی آنکھ میں کیچڑ تھا، آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کردیا۔ امامہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں، یہاں تک کہ ان کی خالہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کی۔ ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنی بچی کے بارے میں زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو وصی بنا دیا تھا، چنانچہ
Flag Counter