Maktaba Wahhabi

65 - 548
ننے اسلام قبول کرلیا ہے، پھر نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے۔[1] عامر شعبی وغیرہ سے روایت ہے کہ ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ جب مشرکین کے اموال لیے ملک شام سے آرہے تھے ان سے کہا گیا: کیا تمھاری چاہت ہے کہ تم اسلام لے آؤ اور مشرکین کا یہ سب مال لے لو۔ ابوالعاص نے کہا: امانت میں خیانت سے اسلام کی ابتداء بہت بری با ت ہے۔[2] ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے اقوال سے ہم امانت داری، غیر مسلموں تک سے حسن اخلاق سے پیش آنا جیسے اہم باتوں کو سیکھ سکتے ہیں، اس لیے مسلمان کو کسی بھی حالت میں امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔ جب ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے پاس عقد قدیم کے ساتھ لوٹا دیا، عقد جدید نہیں کیا۔[3] حضرت زینب اور ان کے شوہر کے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے سے متعلق بہت ساری روایتیں وارد ہیں، لیکن تمام روایتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کی وفاداری اور مکہ سے نکلتے ہوئے حضرت زینب کے حق میں مشرکین کی ایذا رسانی پر متفق ہیں۔[4] ج: آپ کي وفات اور اولاد:…عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ ایک شخص زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کر رہا تھا، اسی اثناء میں قریش کے دوآدمی اس کے پاس پہنچے، اس سے لڑنے لگے، اسے مغلوب کرکے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو دھکیل دیا، وہ ایک چٹان پر گر پڑیں، ان کا حمل ساقط ہوگیا، بہت سارا خون بہ گیا، لوگ ان کو ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے، بنوہاشم کی عورتیں آئیں تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کے حوالے کردیا، اس کے بعد جب ہجرت کرکے آئیں تو ان کی تکلیف باقی تھی، اسی تکلیف میں ان کا انتقال ہوگیا، اس لیے لوگوں کے خیال میں آپ شہیدہ ہیں، ان کا انتقال ۸ھ کی ابتداء میں ہوا۔[5] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ ریکھ میں ان کی تجہیز و تکفین ہوئی۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرمایا کہ جب زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو آپ نے ہم لوگوں سے فرمایا: تم انھیں طاق عدد یعنی تین یا پانچ مرتبہ نہلاؤ، پانچویں مرتبہ میں کافور کا استعمال کرو، جب غسل دے چکو تو مجھے بتلاؤ، کہتی ہیں کہ آپ نے ہم کو اپنا ازار دیا
Flag Counter