Maktaba Wahhabi

526 - 548
منصب تک پہنچنے سے زیادہ آسان ہے، چنانچہ عالم یا پرہیزگار جسے لوگوں کے دلوں میں مقام و مرتبہ حاصل ہوچکا ہو اگر وہ مالدار بننا چاہے تو لوگ اسے اپنے مال اور عملی تعاون سے ایسا بنا دیں گے۔ ۲۔ مال ضائع یا ختم ہوسکتاہے، اسے خطرات لاحق رہتے ہیں، لیکن مقام و مرتبہ جب دلوں میں داخل ہوجائے تو ان کا مالک ہوجاتا ہے اور مضبوطی سے ان میں جگہ بنا لیتا ہے، اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا الا یہ کہ کوئی ایسی بات ہو جائے جس سے صاحبِ جاہ کے بارے میں لوگوں کا نظریہ بدل جائے۔ ۳۔ دلوں کی حکومت بغیر پریشانی و مصیبت کے بڑھتی رہتی ہے، جب لوگوں کی نگاہ میں کوئی شخص جم جاتا ہے تو وہ لوگ بکثرت اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں، اور ان کے مابین اس کی شہرت پھیل جاتی ہے۔[1] حب ذات اور حب جاہ کی خواہشوں کے مابین شدید تداخل ہے، اس تداخل سے بہت سی نفسانی بیماریاں جنم لیتی ہیں، ان میں سے بعض بیماریاں یہ ہیں، ریاکاری، گھمنڈ، لوگوں سے اپنے آپ کو برتر سمجھنا، خود پسندی، لوگوں کے مابین اپنی تعریف کی خواہش، انانیت، بخل، حسد، غصہ کی کثرت، دوسروں کے سامنے جھک جانا اور چاپلوسی کرنا وغیرہ۔ یہ حقیقت میں دل سے متعلق حرام چیزیں ہیں جن کو چھوڑنے کے لیے کتاب و سنت کی روشنی، اخلاقی تربیت اور مجاہدے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جو دنیا والوں کے نزدیک مقام و مرتبہ چاہتا ہے، اور یہی اس کی مصروفیت رہتی ہے تو وہ ان لوگوں کے لیے اپنے دین اور عزتِ نفس کو قربان کردیتا ہے، تاکہ اپنا مقصد حاصل کرلے، اور ان کے سامنے جھک جاتا ہے تاکہ ان کی رضامندی حاصل کرلے۔[2] اس سلسلے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اسی طرح روئے زمین میں ریاست و سرداری اور بلندی و سرفرازی کے طالب کا دل ان لوگوں کے لیے نرم ہوتا ہے جو اس کے اس سلسلے میں معاون و مددگار ہوتے ہیں، وہ اگرچہ بظاہر ان کا سربراہ اور فرمانروا ہوتاہے، لیکن حقیقت میں وہ ان سے امید لگائے رہتا ہے، ان سے ڈرتا رہتا ہے، وہ بظاہر سردار اور فرمانروا ہے، لیکن حقیقت میں ان کا فرمانبردار و غلام ہوتا ہے۔‘‘[3] یہ بہت اہم بات ہے، اسلامی قائدین کو اسے اچھی طرح سمجھنا چاہیے، اور لوگوں کے ایسے مطالبات کے سامنے رقتِ قلب اور نرمی کا مظاہرہ بالکل نہ کریں جو دین و شریعت سے متصادم ہوں۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہمیں نفس کی خفیہ خواہشوں پر مبادی و قیم کو ترجیح دینا سکھلاتے ہیں۔ آپ کے بعض
Flag Counter