Maktaba Wahhabi

525 - 548
أہل السماء ثم یوضع لہ القبول فی الأرض۔))[1] ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اعلان کرتاہے اے جبریل میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تو اس سے جبریل علیہ السلام محبت کرنے لگتے ہیں پھر آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر روئے زمین میں اس کو مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔‘‘ بہرحال اخروی مقام و مرتبہ کی طلب پر بلاچاہت و طلب دنیاوی مقام و مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے، اس کے برعکس دنیاوی مقام و مرتبہ کی طلب پر اخروی مقام و مرتبہ نہیں حاصل ہوتا، سعادت مند وہ ہے جو باقی رہنے والی چیز کو فانی پر ترجیح دے۔ ابوالفتح بُستی کا قول ہے: أمران مفترقان لست تراہما یتشوقان لخلطۃ و تلاقی ’’دو الگ الگ چیزیں ہیں جنھیں تم اکٹھا ہوتے اور ملتے ہوئے نہیں دیکھو گے۔‘‘ طلب المعاد مع الریاسۃ و العلی فدع الذی یفنی لما ہو باقی[2] ’’دنیاوی سرداری و سربلندی کے ساتھ آخرت کی چاہت، اس لیے فانی کو باقی کی چاہت میں چھوڑ دو۔‘‘ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہمیں سکھلا رہے ہیں کہ رضائے الٰہی کی چاہت میں دنیاوی شہرت، حکومت، طاقت اور مقام و مرتبہ سے ہم کس طرح بے رغبت بنیں، دنیاوی معاملے سے دست برداری کے باعث حسن رضی اللہ عنہ کی سربلندی و سرداری میں اضافہ ہوگیا، آپ ذاتی مفاد سے اوپر اٹھنے اور دوسروں کے لیے ایثار کی علامت بن گئے، نیز امت کے اتحاد اور خونریزی سے بچاؤ کی مصلحت کو کسی اور مصلحت پر مقدم کرنے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امت کے واسطے قابل فخر نمونہ بن گئے، مقام و مرتبہ کی شدید خواہش بہت سارے لوگوں کے دلوں میں انتہا کو پہنچ چکی ہے، اور وہاں تک پہنچنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے بہت ساری طاقت اور اموال خرچ کرتے ہیں، دھوکہ بازی اور بہت سارے حیلوں کو اپناتے ہیں اور اسے مال کی چاہت پر درج ذیل اسباب کے باعث ترجیح دیتے ہیں: ۱۔ اس لیے کہ مقام ومنصب کے ذریعہ سے مال کے حصول تک پہنچنا بالمقابل مال کے ذریعہ سے مقام و
Flag Counter