Maktaba Wahhabi

482 - 548
اہل بیت اور اہل و عیال برباد ہوجائیں، اللہ کی قسم! اگر میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کروں گا تو یہ لوگ میری گردن ان کے حوالے کرکے صلح کرلیں گے، اللہ کی قسم اگر میں باعزت ان سے صلح کرلوں یہ بہتر ہے اس سے کہ وہ مجھے بہالت قید قتل کر دیں، یا مجھ پر احسان کرتے ہوئے چھوڑ دیں، تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بنوہاشم پر احسان ہوگا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ نیز ان کی آنے والی نسل ہمارے زندوں اور مردوں پر اس کا احسان جتاتی رہے گی۔‘‘[1] نیز فرمایا: ’’میں اہلِ کوفہ کو پہچان چکا ہوں اور انھیں آزما چکا ہوں، ان میں سے جو خراب تھے وہ میرے لیے اچھے نہیں ہوجائیں گے، وہ وفادار نہیں ہیں، ان کے قول و عمل کا کوئی بھروسا نہیں ہے، یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں جب کہ وہ ہم سے اختلاف رکھنے والے ہیں، اور ان کی تلواریں ہمارے خلاف ہی اٹھنے والی ہیں۔‘‘[2] اہل عراق نے حسن رضی اللہ عنہ کے والد کو قتل کردیا، خود ان کو قتل کرنے کی کوشش کی، ان کا مال و اسباب لوٹ لیا، اس کے بعد حسن رضی اللہ عنہ ان پر کوئی بھروسا نہیں کرتے تھے۔ اس چیز کو اپنی تقریر میں بیان کرتے ہوئے کہا: ’’اے اہلِ عراق! تمھاری تین غلطیاں میرے ذہن سے اوجھل نہیں ہوتیں ورنہ میں تمھاری غلطیوں کو بھول جاتا، تمھارا میرے والد کو قتل کردینا، میری ران کی جڑ پر وار کرکے زخمی کردینا، میرے مال واسباب کو لوٹ لینا، دوسری روایت کے مطابق میری چادر کو میرے کندھے سے کھینچ لینا۔‘‘[3] حسن رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: ایسا کرنے پر آپ کو کس چیز نے آمادہ کیا؟ تو جواب دیا: مجھے دنیا ناپسند تھی، مجھے یہ معلوم ہوگیا کہ کوفیوں پر جو بھی بھروسا کرے گا مغلوب ہوجائے گا، ان میں سے کوئی کسی معاملے اور رائے میں دوسرے کی موافقت نہیں کرتا، بھلائی یابرائی کی کوئی پختہ نیت ان کے پاس نہیں ہوتی، جب چاہتے ہیں اختلاف کر بیٹھتے ہیں، میرے والد نے ان کے بہت سے عظیم معاملات کو جھیلا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ میرے بعد یہ لوگ کس کے لیے اچھے ہوں گے۔[4] یہ بات علی الاطلاق نہیں تھی، حسن رضی اللہ عنہ کی فوج کو قوی قرار دیا جاسکتا ہے، اور اس کے کچھ دستے جنگ کے لیے تیار تھے، ان میں پیش پیش قیس بن سعد خزرجی رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ دوسرے قائدین تھے۔
Flag Counter