Maktaba Wahhabi

481 - 548
آئے، اہل اہواز آپ سے الگ ہوگئے، خراج دینے والوں میں نہ دینے کا لالچ پیدا ہو گیا، اور ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کے گورنر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو فارس سے نکال دیا۔‘‘[1] حسن رضی اللہ عنہ نے جب خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو عراقی فوج میں اضطراب تھا، اہل کوفہ اپنے معاملہ میں متردد تھے، ابن درید کی ’’المجتبی‘‘ میں وارد ہے: ’’حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کے انتقال کے بعد کھڑے ہو کر تقریر کی: اللہ کی قسم! ہم نے اہل شام سے اس لیے منہ نھیں موڑا کہ ہم شک و ندامت میں مبتلا تھے، ہم صبر و سلامتی کے ساتھ ان کی مزاحمت کرتے تھے، پھر سلامتی میں دشمنی اور صبرمیں بے صبری کی ملاوٹ ہوگئی، جب تم جنگ صفین میں گئے تھے تو تمھارا دین دنیا پر مقدم تھا، آج تمھاری حالت بدل گئی ہے، تمھاری دنیا دین پر مقدم ہے، تمھارے ساتھ ہمارا جو معاملہ تھا وہی ہے، لیکن ہمارے ساتھ تمھارا معاملہ بدل چکا ہے، تم دو طرح کے مقتولین کے مابین منقسم ہو، صفین کے مقتولین جن پر تم رو رہے ہو، نہروان کے مقتولین جن کے بدلے کا تم مطالبہ کر رہے ہو، بقیہ لوگ جنگ سے کترانے والے ہیں، مقتولین پر رونے والے بغاوت کرنے والے ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں ایسی بات کی دعوت دی ہے جس میں نہ عزت ہے نہ انصاف، اگر تم جنگ میں موت کے لیے تیار ہو تو ان کی دعوت ہم ٹھکرا دیں، اور اگر جنگ نہ کرکے زندہ رہنا چاہتے ہو تو ان کی دعوت قبول کرلیں، ہر طرف سے لوگوں کی آواز آئی: ’’جنگ سے بچو‘‘ جنگ سے بچو، جب لوگوں نے انھیں تنہا کردیا تو آپ نے صلح کرلی۔‘‘[2] مجھے اگرچہ اس تقریر کی نسبت میں شک ہے، لیکن وہ حسن رضی اللہ عنہ اور ان کے متبعین کی اس نفسیات کی تصویر کشی کرتی ہے جس کے باعث اپنے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین صلح میں آپ نے جلدی کی۔[3] اہل عراق نے حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا، اور جو برا اور اہانت آمیز سلوک کیا اس کا اظہار کرتے ہوئے حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اللہ کی قسم! میری رائے میں معاویہ رضی اللہ عنہ میرے لیے ان لوگوں سے بہتر ہیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ میرے معاونین ہیں، انھوں نے مجھے قتل کرنا چاہا، میرے مال و اسباب کو لوٹ لیا، اللہ کی قسم میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایسا عہد لے لوں جس سے میں اپنی جان بچا لوں اور اپنے اہل وعیال میں امن و امان سے رہوں، یہ بہتر ہے اس سے کہ یہ لوگ مجھے قتل کر دیں، پھر میرے
Flag Counter