Maktaba Wahhabi

342 - 548
ہر بولنے والے کی زبان سے باخبر ہے۔ فرمان الٰہی ہے: (مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ) (ق:۱۸) ’’انسان منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔‘‘ زبان کی دو عظیم آفتیں ہیں، انسان اگر ایک سے بچ جاتا ہے تو دوسری سے نہیں بچتا، گفتگو کی آفت، خاموشی کی آفت، اپنے اپنے وقت میں دونوں میں سے ہر ایک بہت بڑے گناہ کا باعث ہوتی ہیں، واضح رہے کہ حق بات پر چپ رہنے والا گونگا شیطان ہے، اللہ کا نافرمان، ریاکار اور حق کو چھپانے والا ہے، باطل گفتگو کرنے والا، بولنے والا شیطان ہے، اللہ کا نافرمان ہے۔ اکثر لوگ اپنی گفتگو اور خاموشی میں منحرف ہوتے ہیں، وہ انھی مذکورہ دو قسموں میں سے ہوتے ہیں، بیچ والی قسم کے لوگ -جو صراط مستقیم والے ہیں - غلط باتوں سے اپنی زبانوں کو بچاتے ہیں، آخرت میں نفع بخش باتوں میں انھیں استعمال کرتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسی بات نہیں کرتا جو بے مقصد ہو، چہ جائیکہ وہ آخرت میں مضر ہو، بندہ قیامت کے دن پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئے گا، لیکن اسے پتہ چلے گا کہ اس کی زبان نے ان تمام نیکیوں کو برباد کردیا ہے، اورپہاڑوں کے برابر برائیاں لے کر آئے گا، لیکن اسے پتہ چلے گا کہ اس کی زبان نے ذکر الٰہی اور اس کے متعلقات میں مشغول ہونے کے باعث ان برائیو ں کو ختم کردیا ہے۔[1] نہ گفتگو کا مطلقاً حکم دیا گیا ہے نہ ہی خاموشی کا،بلکہ بھلی گفتگو کرنا اور بری گفتگو سے بچنا ضروری ہے، لوگ عموماً لایعنی اور بری باتیں کرتے ہیں اور ان پر خاموشی چوں کہ مشکل ہوتی ہے، اس لیے سلف اکثر وبیشتر اس خاموشی کی تعریف کرتے تھے اور اپنے آپ کو لایعنی باتیں نہ کرنے کا عادی بناتے تھے۔[2] فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’حج، سرحدوں کی حفاظت، جہاد، ان میں سے کوئی بھی زبان کو کنٹرول کرنے سے زیادہ مشکل نہیں، اگر تم اپنی زبان کے تابع ہوگئے تو تمھیں شدید غم لاحق ہوگا۔‘‘ انھی کا قول ہے: ’’زبان کی پابندی مومن کی پابندی ہے، اگر تم اپنی زبان کے تابع ہوگئے تو تمھیں شدیدغم لاحق ہوگا۔‘‘[3]
Flag Counter