Maktaba Wahhabi

341 - 548
سامنے تواضع و خاکساری کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے ہمسر عالم سے ملتا ہے تو اس سے مختلف موضوعات پر مباحثہ و مناقشہ کرتا ہے۔‘‘ [1] اہل علم سے طلبِ علم اور استفادہ، ان کی باتوں کو سننے، ان کا احترام کرنے کی سلف صالحین نے بہترین مثالیں قائم کی ہیں، اس کے شاہد وہ واقعات ہیں جنھیں خطیب بغدادی وغیرہ نے اس سلسلے میں نقل کیا ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ کا قول: ((کَانَ أَکْثَرَ دَہْرِہِ صَامِتًا فَإِذَا قَالَ بَذَّ الْقَائِلِیْنَ، کَانَ لَا یُشَارِکُ فِی دَعْوَی وَ لَا یَدْخُلُ فِی مِرَائٍ۔))[2] ’’اکثر اوقات خاموش رہتا، جب بولتا تو بولنے والوں پر فوقیت لے جاتا، کسی دعوے اور جھگڑے میں دخل اندازی نہ کرتا۔‘‘ حسن رضی اللہ عنہ اپنے اس قول کے ذریعہ سے جھگڑے سے بچنے اور کم گفتگو کی دعوت دے رہے ہیں، فرمان نبوی ہے: ((إِذَا أَصْبَحَ الْعَبْدُ فَإِنَّ الْأَعْضَائَ کُلَّہَا تُکَفِّرُ اللِّسَانَ، تَقُوْلُ: اِتَّقِ اللّٰہَ فِیْنَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ بِکَ فَإِذَا اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَ إِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا۔)) [3] ’’جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاء زبان سے نہایت عاجزی سے عرض کرتے ہیں، کہتے ہیں: تو ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہ اس لیے کہ ہمارا معاملہ تیرے ساتھ وابستہ ہے اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر تو ٹیڑھی ہوئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔‘‘ سلف صالحین اپنی گفتگو کے سلسلے میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا کرتے تھے، اس لیے کہ زبان دیگر اعضاء کے بالمقابل زیادہ آسانی سے چلنے والی ہے اور بندے کے حق میں زیادہ مضر بھی ہے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی زبان کو پکڑ کر کہا کرتے تھے: ((ہٰذَا أَوْرَدَنِیَ الْمَوَارِدَ۔)) [4] ’’اس نے مجھے کئی گھاٹ کا پانی پلایا۔‘‘ گفتگو تمھاری قید میں ہوتی ہے، تمھارے منہ سے نکل جانے کے بعد تم اس کے قیدی ہوجاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ
Flag Counter