Maktaba Wahhabi

284 - 548
((مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِلَّا مِثْلَ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ اِصْبَعَہٗ فِی الْیَمِّ فَلْیَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ۔)) [1] ’’آخرت کے مقابلے میں دنیا ایسے ہی ہے کہ کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبو دے پھر نکال کر دیکھے کہ سمندر کا کون سا حصہ نکل کر آیا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ((اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُوْمِنِ وَ جَنَّۃُ الْکَافِرِ۔)) [2] ’’دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔‘‘ حسن بن علی رضی اللہ عنہما قرآنی اور نبوی تربیت یافتہ تھے، اس لیے آپ زہد کا اعلیٰ نمونہ تھے، آپ نے زہد کی نہایت عمدہ مثالیں پیش کی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے: سلطنت اور عزو شرف کے لیے آدمی کی حرص، مال کی حرص سے زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح دنیاوی عز وجاہ، سرداری اور زمین میں سربلندی کی چاہت، بندے کے لیے مال کی طلب سے زیادہ مضر ہے، اس میں زہد و تقویٰ نہیں پایا جاسکتا ہے، سرداری اور عز و شرف کی طلب میں مال خرچ کردیے جاتے ہیں، عز و شرف کی حرص دو قسم کی ہوتی ہے: ۱۔ مال و سلطنت اور اقتدار و بالا دستی کے ذریعہ سے عز و شرف کی طلب، یہ نہایت خطرناک چیز ہے، یہ چیز عموماً آخرت کی بھلائی اور اس کے عزو جاہ سے مانع ہوتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے: (تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ) (القصص:۸۳) ’’وہ آخرت کا گھر ہم انھی کے لیے مقرر کردیتے ہیں جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے، نہ فساد کرنا چاہتے ہیں، پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمدہ انجام ہے۔‘‘ جو لوگ اقتدار حاصل کرکے دنیا کی سرداری کے حریص ہوتے ہیں انھیں توفیق الٰہی نہیں ملتی، بلکہ وہ اپنے حال پر چھوڑ دیے جاتے ہیں،[3] جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ((یَا عَبْدَالرَّحْمٰنِ لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَۃَ فَإِنَّکَ إِنْ أُعْطِیْتَہَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِّلْتَ إِلَیْہَا، وَإِنْ أُعْطِیْتَہَا مِنْ غَیْرِ مَسْئَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْہِ۔)) [4]
Flag Counter