Maktaba Wahhabi

283 - 548
’’ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا نکلتا ہے، پھر آخر کار وہ چورا چورا ہوجاتا ہے جسے ہوائیں لیے پھرتی ہیں، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، مال و اولاد تو دنیا کی ہی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ازروئے ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں۔‘‘ یہ مثال بتلاتی ہے کہ دنیا ایک حقیر اور چند روزہ چیز ہے، اس کی نعمتیں اور تن آسانیاں ختم ہونے والی ہیں، یہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کہ دنیا بہت جلد ختم و فنا ہونے والی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیا کہ مال و اولاد لوگوں کے نزدیک دنیاوی زندگی کی زیب وزینت ہیں، اور دنیا کی ہر زینت بہت جلد ختم ہونے والی ہے، اس لیے اس پر خوش ہونا یا فخر کرنا عقل مندوں کا کام نہیں۔[1] (وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلً) (الکہف:۴۶) ’’اورباقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئندہ کی) توقع کے بہت بہتر ہیں۔‘‘ یعنی نیک اعمال اور عبادتیں جیسے نمازیں، صدقات، جہاد فی سبیل اللہ، غریبوں محتاجوں کی مدد، اور اوراد و وظائف وغیرہ ثواب میں بہتر، اللہ کی قربت کے زیادہ باعث اور تا دیر اثر والے ہیں، اس لیے کہ ان کا ثواب انھیں انجام دینے والے کو ملنے والا ہے، اور ازروئے توقع بہتر ہیں اس لیے کہ انھیں انجام دینے والا آخرت میں ہر وہ چیز پائے گا جس کی دنیا میں وہ توقع کرتا تھا۔[2] حسن رضی اللہ عنہ کی تربیت آپ کے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج پر ہوئی جو دنیا کی حقیقت کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمان ہے: ((لَوْکَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرٌا شِرْبَۃَ مَائٍ)) [3] ’’اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو وہ کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ نہ پینے دیتا۔‘‘ نیز فرمایا:
Flag Counter