Maktaba Wahhabi

259 - 548
ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح مستشرق ’’لامنس‘‘ نے اپنی کتاب ’’تاریخ بنی امیۃ‘‘ میں کتاب ’’الأغانی‘‘ پر اعتماد کیا ہے اور اسی طرح کی بات مستشرق ’’ولہاؤزن‘‘ نے اپنی کتاب ’’الدولۃ العربیۃ و سقوطہا‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ جبور عبدالنور نے اصفہانی کا دفاع کرتے ہوئے سوال کیا ہے: کیا یہ ضروری ہے کہ مورخ جب فاسق اور لذتوں اور شہوتوں میں حد سے تجاوز کرنے والا ہو، تو وہ مورخ ہی باقی نہ رہے؟ اپنی روایتوں، باتوں اور تحریروں میں سچا نہ ہو؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے: ہاں، اگر مغربی فکر میں ایسا نہیں ہے تو یہ دوسری بات ہے، ہماری اسلامی فکر میں ایسا ہی ہے۔ فکر اسلامی نے باحث کے علم اور ا س کی شخصیت کے مابین ربط کی بنیاد پر بحث و نقد اور علم کے قواعد کو وضع کیا ہے، اگر اس کی زندگی میں انحراف، شخصیت میں اضطراب اور دین و اخلاق سے دوری ہو تو ہم اس کو ایک علمی مرجع کی حیثیت نہیں دیتے، اس کی شہادت کو قبول نہیں کرتے، اصفہانی کے موافقین و مخالفین سب اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اس کی رائے ناقابل اعتبار اور اس کی شہادت ناقابلِ قبول ہے، اس کے فسق نے اس کی بہت ساری نفسانی خواہشات کو اس کی تحریروں میں داخل کردیا ہے، اس کے اجتماعی، اعتقادی اور فکری انحراف کی بات ہی الگ ہے جس نے اس کی آراء کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، ساتھ ہی ساتھ کتاب ’’الأغانی‘‘ کوئی علمی مرجع نہیں ہے، بلکہ یہ دل بستگی، قصے اور کہانیوں کی کتاب ہے جو بعض عیش پرستوں کے خالی اوقات گزارنیکے لیے لکھی گئی ہے، اس لیے یہ کتاب کسی طرح علم کے لیے مصدر اور ادب و تاریخ کی بحث کے لیے مرجع نہیں ہوسکتی۔[1]ہماری تاریخ کو بگاڑنے میں اس کا اہم کردار رہا ہے اس لیے اس سے آگاہ کرنا اور روکنا واجب تھا۔
Flag Counter