Maktaba Wahhabi

258 - 548
انور جندی مزید کہتے ہیں: میں نہیں سمجھ پاتا کہ ایسی کتاب باحثین کی نظر میں مرجع کیسے بن سکتی ہے؟ یا اس کی کوئی رائے یا قول قابلِ اطمینان کیسے ہوسکتا ہے؟ فکر اسلامی کے مناہج نے ہمیں اس بات کا عادی بنا دیا ہے کہ اس پر کسی بھی لکھنے والے کے بارے میں دیکھیں، اگر وہ شریف، امین، اپنی حق گوئی و سچائی کے باعث لوگوں کے نزدیک محترم ہو تو ہم اس کی تحریر کو قبول کرلیں، ورنہ رد کردیں وہ اپنی بعض تحریروں میں سچا ہو۔[1] پھر زیر عنوان ’’کتاب مجون و خلاعۃ‘‘ کہتے ہیں: اصفہانی حد سے تجاوز کرنے والا تھا، لذتوں اور شہوتوں میں درجۂ قباحت و شناعت تک پہنچ جاتا تھا، اس کی اس اخلاقی ساخت کا اس کی کتاب میں نمایاں اثر تھا، کتاب ’’الأغانی‘‘ بے حیائی و فحاشی کے واقعات سے بھری پڑی ہے، وہ جب ادباء و شعراء پر گفتگو کرتاہے تو ان کے شخصی اخلاق کے کمزور پہلوؤں کا تذکرہ کرتا ہے اور سنجیدہ پہلوؤں کو نمایاں طور سے چھوڑ دیتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ غسل، صفائی، ستھرائی، وقار اور سنجیدگی کی باتوں پر بہت کم توجہ دیتا تھا، اصفہانی کے اس پہلو نے اس پر اعتماد کرنے والے مصنّفین کی بہت سی آراء کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ جرجی زیدان نے اپنی کتاب ’’تاریخ آداب اللغۃ العربیۃ‘‘ اور طٰہٰ حسین نے اپنی کتاب ’’حدیث الأربعاء‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے اس پر ایک طائرانہ نظر اس یقین کے لیے کافی ہوگی کہ کتاب ’’الأغانی‘‘ پر اعتماد ہی کے باعث ان دونوں باحثین نے عصرعباسی کے عام لوگوں کے اخلاقی انحطاط کا ذکر کیا ہے اور یہ حکم لگایا ہے کہ عصر عباسی فسق و فجور اور بے حیائی و بیہودگی کا زمانہ تھا، بلاشبہ شعراء کی غلطیوں اور ادباء کی لغزشوں کی من جانب اصفہانی بکثرت تلاش و جستجو نے اس کتاب کو گناہ اور گمراہی کی باتوں سے بھر دیا ہے، اور لوگوں میں یہ غلط بات عام کردی ہے کہ عبقریت کا تعلق عیش پرستی اور بیہودگی سے ہوتا ہے۔‘‘[2] یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ باحثین اس بات پر مطمئن ہوجائیں کہ ’’الأغانی‘‘ کی روایتوں کو تاریخی اہمیت و حیثیت حاصل ہے، اور انھی کی اساس پر تاریخی حقائق کو مرتب کریں۔ مغربیت کی ترویج کا یہ نہایت خطرناک کارنامہ رہا ہے کہ اس نے باحثین کو اس جانب متوجہ کردیا کہ انھوں نے اسلامی معاشرے کی تصویر کشی میں ’’الأغانی‘‘ کو مرجع اور مصدر کی حیثیت دے دی، جب کہ اس کتاب میں صرف حقوق اللہ (کی پامالیوں) سے متعلق باتیں ہیں، معاشرے کے بہت سارے دوسرے سنجیدہ پہلوؤں کو چھوڑ دیا ہے، اس لیے اس کتاب پر بحیثیت مصدر اعتماد کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دوسری صدی ہجری میں مسلمانوں کی زندگی لہو و لعب والی تھی۔ طٰہٰ حسین نے اس کی صراحت کی ہے اور بہت سارے لوگوں نے اس کی تردید کی ہے، اور اس کے کھوٹ کو
Flag Counter