Maktaba Wahhabi

255 - 548
٭ ’’السیف الیمانی فی نحر الأصفہانی‘‘ کے مقدمے میں ولید اعظمی کہتے ہیں: یہاں سے میں کتاب ’’الأغانی‘‘ پر نئے سرے سے غور کرنے لگا، جب تضعیف و توثیق، جرح و تعدیل کی کتابوں کا مراجعہ کیا تو پتہ چلا کہ اصفہانی قابل اطمینان نہیں ہے، ہمارے محقق علما کبار کے نزدیک وہ ثقہ نہیں ہے، میں نے اپنی عمر کے مکمل دو سال کتاب الأغانی پر لگائے، اس کے نصوص و اقوال کی چھان پھٹک کرتا رہا، ہر خبر کا جائزہ لیتا رہا، اس کی ایک ایک سطر اور ایک ایک کلمے کی جانچ پڑتال کی، اس کی خامیوں اور خرابیوں کو اجاگر کیا، سرحدوں کی حفاطت پر مامور مجاہدین کی طرح میں نے اس پر صبر کیا، نتیجتاً سینوں میں کینہ و شعوبیت کی آگ کو ہانڈی کی طرح جوش مارتے ہوئے پایا، دشمنوں کی تیروں کا نشانہ ہم ہیں، ان کی ہم پر بوچھار ہو رہی ہے۔میں شاعر کا یہ شعر دہرانے لگا: لو کان سہما واحدا لا تقیتہ و لکنہ سہم، و ثان و ثالث ’اگر ایک تیر ہوتی تو میں اس سے بچاؤ کرلیتا، لیکن تیروں کی بوچھار ہے۔‘‘ بنابریں میں پوری طرح مستعد ہوگیا کہ حقیقت و غیر حقیقت، شہد و زہر کو الگ الگ کردوں، اصفہانی نے جن لوگوں سے روایت کیا ہے ان کا جائزہ لینے لگا، اسماء الرجال کی کتابوں میں انھیں تلاش کرنے لگا، ان کے بارے میں وارد اقوال کو پڑھنے لگا تو ان میں ہر طرح کی خرابی پائی، انھیں کذاب، مجروح اور مطعون پایا، ان کذابوں کو چھانٹ کر الگ کیا، ان کا تعارف کرایا، پھر اصفہانی نے ہر راوی سے جو روایتیں درج کی ہیں ان کا احصاء کرنے لگا، چنانچہ دیکھا کہ ان کذابوں پر اس حد تک اعتماد کیا ہے اور ان سے اتنی روایت اور استفادہ کیا ہے کہ میں مبہوت ہو کر رہ گیا، اور اپنے آپ کو پایا کہ میں ایک دور دراز اور خوفناک وادی میں ہوں، ایک نہایت تکلیف دہ تاریک غار میں داخل ہوگیا ہوں۔ جب یہ راوی احادیث نبویہ کی روایت میں جھوٹ بول سکتے ہیں تو لوگوں کی خبروں کی بات ہی اور ہے، یہ مختلف مذاہب، فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ان کے رجحانات و خیالات اور منفعتیں انھیں اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں، ان کے اہداف و مقاصد انھیں جہاں چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔ کتاب ’’الآغانی‘‘ علم و فقہ اور تاریخ کے بجائے ادب، قصے، کہانیوں اور گانوں کی کتاب ہے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ اس میں موجود عیوب، دوسروں کی تنقیص و تجریح اور صریح جھوٹ پر خاموش رہا جائے۔
Flag Counter