Maktaba Wahhabi

254 - 548
عباسیوں کی زندگی کو لہو و لعب، بے حیائی، گانوں اور شرابوں سے بھرپور پائے گا، یہ باتیں مؤلف کی زندگی اور اس کے خیالات سے ہم آہنگ ہیں، جو بھی تاریخ کی صحیح کتابوں کا مراجعہ کرے گا تو وہ صورت حال بالکل مختلف پائے گا کہ ان کی زندگی علم و ادب اور جہاد کی زندگی تھی، اس لیے کتاب ’’الاغانی‘‘ لائق حجت تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔‘‘[1] ٭ ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل مشہور کا قول ہے: ایک اہم معاملے کا تذکرہ جسے بعض باحثین جانتے ہیں ضروری ہے وہ یہ کہ ابوالفرج کے شیعی رجحانات و خیالات کا اس کی اس کتاب میں نمایاں کردار رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد احمد خلف اللہ اپنی کتاب ’’ابوالفرج الأصفہانی‘‘ کے خاتمہ میں کہتے ہیں: ’’ابوالفرج کے (شیعی) خیالات و رجحانات سے ہمیں واقفیت ہوچکی، اس لیے ہمیں ان سے بچنا چاہیے، اس شخص کی روایتوں پر جب جب اعتماد کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ کبھی وہ گمراہ کرنے والا ہوتا ہے، کبھی اس کی ذاتی رائے اور رجحان کا دخل ہوتا ہے۔تاریخ میں ذاتی رجحانات کا حکم بالکل واضح ہے، اس حکم کے مطابق بسااوقات وہ دوسروں پر اپنی رغبت تھوپ دیتا ہے، صرف خبروں کے ذکر ہی میں نہیں بلکہ خبروں کو چھپانے میں بھی۔‘‘[2] بعض لوگ سوال کرتے ہیں: اس کتاب سے اتنی تفصیلی ممانعت کیوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ممانعت کے بہت سارے اسباب ہیں جو درج ذیل ہیں: ۱۔ اس کتاب کی دور دور تک شہرت کے باعث۔ ۲۔ اس پر بہت سارے اہل مغرب کے اعتماد کے باعث ۳۔ اس کتاب کے اسلام، خلفاء، صحابہ کرام اور صالح وعادل فرماں رواؤں کی تنقید کی خبروں پر مشتمل ہونے کے باعث۔ ۴۔ بہت سارے معاصرین کی اس حرص کے باعث کہ وہ اس کتاب میں مذکور باتوں کو ثابت کریں کہ وہ درست اور سچی ہیں، جیسا کہ شفیق جبری نے اپنی کتاب ’’دراسۃ الأغانی‘‘ میں کیا ہے جسے اس نے طٰہٰ حسین کی ہمت افزائی کے نتیجے میں لکھا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ادبی اہمیت اور مؤثر و قوی اسلوب کے باوجود اس کتاب کی خبریں اور اس کے مواد غور طلب اور تنقید و تنقیح کے محتاج ہیں۔[3]
Flag Counter