Maktaba Wahhabi

248 - 548
اور ان لوگوں کی باطل رائے دوسری طرف ہے، پھر دوسری بات یہ کہ اس حدیث میں ائمہ کے اس مخصوص تعداد میں منحصر ہونے کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ آپ کی پیشین گوئی ہے کہ اسلام ان لوگوں کے زمانے میں غالب رہے گا اور خلفائے راشدین و بنوامیہ کا زمانہ غلبہ و قوت کا زمانہ رہا۔[1] اسی لیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’بعد کے مقابلے میں بنو امیہ کے زمانے میں اسلام اور اس کے قوانین زیادہ غالب اور وسیع تر تھے۔‘‘ پھر آپ نے اس حدیث سے دلیل پیش کی: ((لَا یَزَالُ ہٰذَا الْأَمْرُ عَزِیْزًا إِلٰی اِثْنٰی عَشَرَ خَلِیْفَۃً کُلُّہُمْ مِّنْ قُرَیْشٍ۔)) ’’بارہ خلیفوں تک یہ اسلام غالب رہے گا، وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔‘‘ پھر کہا: ’’معاملہ ایسا ہی ہوا، چنانچہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم خلیفہ ہوئے، پھر وہ لوگ خلیفہ ہوئے جن پر لوگوں کا اتفاق رہا، اور انھیں غلبہ و قوت حاصل رہی، یعنی معاویہ، ان کے لڑکے یزید، پھر عبدالملک نیز ان کے چار بیٹے اور انھی کے درمیان عمر بن عبدالعزیز رہے، اس کے بعد کمی ہونے لگی جو آج تک باقی ہے۔ پھر آپ نے اس کی شرح کی۔ ‘‘[2] پھر آپ نے حدیث کے اس ٹکڑے ’’کُلُّہُمْ مِّنْ قُرَیْشٍ‘‘ کے بارے میں کہا: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بارہ خلفاء علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ اگر خاص ہوتے تو ان کا کوئی امتیازی وصف بیان کیا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ سب کے سب اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں گے اور نہ یہ کہا کہ سب عرب میں سے ہوں گے، اگر ان کا امتیاز یہ ہوتا کہ وہ بنوہاشم یا علی رضی اللہ عنہ کے خاندان سے ہوں گے تو اس کا تذکرہ کیا گیا ہوتا، جب آپ نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ مطلقاً قریش سے ہوں گے تو وہ کسی خاص قبیلہ کے نہیں ہوں گے، بلکہ بنوتیم، بنوعدی، بنوعبدشمس اور بنوہاشم قبائل سے خلفائے راشدین کا تعلق تھا۔‘‘ [3] اس طرح حدیث میں وارد اوصاف میں سے صرف عدد ہی ان کے بارہ اماموں پر منطبق ہوتا ہے، اور عدد کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔[4]
Flag Counter