Maktaba Wahhabi

247 - 548
عَلَیْہِ الْأُمَّۃُ۔))[1] ’’بارہ خلیفوں تک یہ دین مضبوطی سے قائم رہے گا، ان تمام پر امت کے لوگوں کا اتفاق ہوگا۔‘‘ امام ابوداؤد نے جابر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کو اسود بن سعید کے طریق سے بھی روایت کیا ہے اس میں ان الفاظ کی زیادتی ہے: ((فَلَمَّا رَجَعَ إِلٰی مَنْزِلِہٖ اَتَتْہُ قُرَیْشٌ فَقَالُوْا: ثُمَّ یَکُوْنُ مَاذَا قَالَ: اَلْہَرَجُ۔)) [2] ’’جب آپ گھر لوٹے تو قریش کے لوگ آپ کے پاس آئے اور پوچھا: پھر کیاہوگا، آپ نے فرمایا: فتنہ و فساد، قتل و غارت گری ہوگی۔‘‘ شیعہ اثنا عشریہ اس حدیث سے چمٹے ہوئے ہیں اور اسی سے اہل سنت کے خلاف دلیل قائم کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ کتبِ حدیث میں وارد احادیث پر یقین رکھتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ اہل سنت جس حدیث کو مانتے ہیں اسی سے ان کے خلاف دلیل قائم کریں، اس حدیث میں معروضی انداز میں پوری غیرجانبداری سے غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور بارہ آدمیوں کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں کہ وہ خلیفہ ہوں گے، ان کے عہد میں اسلام غالب و طاقتور ہوگا، لوگوں کا ان پر اتفاق ہوگا، ان کے عہد میں لوگوں کا معاملہ درست اور غالب رہے گا۔ لیکن یہ اوصاف ان لوگوں پر منطبق نہیں ہوتے جن کی امامت کے شیعہ اثنا عشریہ دعویدار ہیں، ان میں سے صرف امیرالمومنین علی و حسن رضی اللہ عنہما خلیفہ ہوئے، خود شیعوں کی نظر میں ان بارہ میں سے کسی ایک کی مدت میں امت کا معاملہ درست نہیں رہا، بلکہ خراب رہا، ان پر ظالم بلکہ کافر حکمران مقرر ہوتے رہے۔[3]ائمہ خود اپنے دینی امور میں ’’تقیہ‘‘ کی آڑ لیتے تھے۔[4]علی رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت بھی ’’تقیہ‘‘ کا دور تھا، جیسا کہ اس کی صراحت ان کے شیخ ’’المفید‘‘ نے کی ہے۔[5] چنانچہ آپ قرآن کو غالب نہ رکھ سکے، اور بعض اسلامی احکام کو نافذ نہ کرسکے جیسا کہ اس کی صراحت ان کے شیخ ’’الجزائری‘‘ نے کی ہے،[6] اور دین میں چھوٹ دے کر صحابہ کا تعاون و حمایت حاصل کرنے پر مجبور ہوگئے جیسا کہ اس کا اقرار ان کے شیخ ’’المرتضی‘‘[7] نے کیا ہے۔ اس لیے حدیث ایک طرف ہے،
Flag Counter