Maktaba Wahhabi

238 - 548
وصیت نہایت خطرناک چیز ہے جسے شیعوں نے گھڑ لیا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد براہِ راست علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی، ان سے پہلے کے خلفاء نے ان کا حق غصب کرلیا، ان کی کتاب ’’الکافی‘‘ میں ہے کہ جو اپنے امام کو پہچانے بغیر مرگیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔[1] لیکن خلفائے راشدین کی تاریخ کو کھنگالنے کے بعد ہمیں نہ تو خلافتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں وصیت کا ذکر ملتا ہے، نہ ہی خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ میں، خلافتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری سالوں میں فتنہ کی ابتداء کے وقت ہمیں اس کے ظہور کی ابتداء ملتی ہے، یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کانوں تک پہنچی تو اس کی تردید کی اور اس کے جھوٹ کو واضح کیا، ان میں سب سے مشہور علی بن ابی طالب و ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما تھے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ بات خلافت علی رضی اللہ عنہ میں ایک عقیدہ و نظریہ کی صورت اختیار کر گئی، جس وصیت کا رافضی شیعہ انکار کرتے ہیں، ان کے علما نے یہ بات ثابت کی ہے کہ اسے عبداللہ بن سبا نے گھڑا ہے جیسا کہ نوبختی اور کشی نے ذکر کیا ہے، میں نے اپنی کتاب ’’أسمی المطالب فی سیرۃ أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب‘‘ میں اس کی تفصیلات کو ذکر کیا ہے۔ ان کے اس زعم باطل کی تردید کے لیے صحابہ سے صحیح روایتیں کافی ہیں، تردید کرنے والوں میں علی رضی اللہ عنہ خود بھی ہیں۔ چند روایتیں درج ذیل ہیں: ۱۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جب اس بات کا تذکرہ کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کے لیے وصیت کی ہے، تو آپ نے کہا: کب ان کے لیے وصیت کی؟ میں آپ کو اپنے سینے سے سہارا دیے ہوئے تھی، آپ نے طشت طلب کیا، آپ میری گود میں جھک گئے، مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ آپ کی وفات ہوگئی، تو کب وصیت کردی؟[2] عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ صراحت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کے لیے وصیت نہیں کی ہے، عدم وصیت کی سب سے بڑی دلیل ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کی گود میں انتقال ہوا اگر آپ نے وصیت کی ہوتی تو آپ سب سے زیادہ جاننے والی ہوتیں۔[3] ۲۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آپ کی اس بیماری میں عیادت کے بعد باہر آئے جس میں آپ کی وفات ہوئی ہے۔ لوگوں(صحابہ) نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter