Maktaba Wahhabi

188 - 548
(( تَبًّا لَکُمْ سَائِرَ الدَّہْرِ، اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَبْرَأُ إِلَیْکُمْ مِنْ دَمِہٖ أَنْ یَکُوْنَ قَتَلْتُ أَوْ مَا لَأَتُ عَلَی قَتْلِہِ)) [1] ’’تمھاری مسلسل بربادی ہو، اے اللہ! میں تیرے حضور ان کے خون سے براء ت کا اظہار کرتا ہوں، نہ تو میں نے قتل کیا ہے اور نہ ہی ان کے قتل میں تعاون کیا ہے۔‘‘ علی رضی اللہ عنہ کا موقف یہی رہا، خیرخواہی کرتے، مشورہ دیتے اور اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہے، اثنائے فتنہ میں آپ کا اچھی طرح ساتھ دیا، آپ کی جانب سے بھرپور دفاع کیا، کبھی آپ کو برا نہیں کہا، خلیفہ اور باغیوں کے مابین خلیج کو پاٹنے اور صلح کرانے کی کوشش کرتے رہے، لیکن معاملہ آپ کے بس سے باہر تھا، اللہ کی مشیت تھی کہ امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو شہادت نصیب ہوا،[2] اور باغی گناہ کے مرتکب ہوں۔ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا انکار کرتے اور آپ کے خون سے براء ت کا اظہار کرتے اوراپنی تقریروں وغیرہ میں قسم کھایا کرتے تھے کہ نہ تو انھوں نے قتل کیا نہ ہی قتل کا حکم دیا، نہ تو اس سلسلے میں تعاون کیا، اور نہ ہی اس پر راضی تھے۔ آپ کے متعلق یہ بات قطعی طریقوں سے ثابت ہے۔[3] اس کے برخلاف بعض لوگوں کا زعم باطل تھا کہ آپ قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ پر راضی تھے۔[4] اس قتل سے متعلق بعض روایتوں کا ذکر کرنے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ((فَأَمَّا الَّذِیْ ادّعتہ المبتدعۃ من معونۃ أمیر المؤمین علی بن أبي طالب فإنہ کذب و زور، فقد تواترت الاخبار بخلافہ۔))[5] ’’بدعتیوں کی جانب سے اس قتل میں امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کے تعاون کا دعویٰ سراسر جھوٹا ہے، اس کے برخلاف روایتیں بہ تواتر وارد ہیں۔‘‘ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ’’یہ سب کا سب جھوٹ اور علی رضی اللہ عنہ پر بہتان ہے، علی رضی اللہ عنہ نہ تو قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک رہے، نہ اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس پر راضی تھے۔ ان سے یہ باتیں منقول ہیں اور وہ سچے اور نیک انسان ہیں۔‘‘[6]
Flag Counter